جاوید احسن ۔۔ جمالِ صحرا سے چشمِ غزال تک ۔۔ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ


5؍ اکتوبر بروز اتوار میں اپنی امی کے ہاں میلاد میں شامل ہونے کے بعد مغرب کی نماز پڑھ رہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی ، میرے بیٹے نے فون اٹھایا اور جب میں نماز پڑھ چکی تو اس نے اطلاع دی کہ آنٹی بشری قریشی کا فون تھا وہ اطلاع دے رہی تھیں کہ جاوید احسن صاحب اب ہم میں نہیں رہے۔ یہ بات سن کر میری عجیب سی کیفیت ہوگئی۔ میں ا یکدم مغرب (شام) اور شام کی اداسی میں کھو گئی۔ یہ مغرب (شام) کا وقت بھی بڑا عجیب ہے۔ سارے محسنوں کو، سارے پیاروں کو اپنے سائے میں لپیٹ کر لے جاتا ہے اور پیچھے صرف یادیں چھوڑ جاتا ہے جو کبھی کبھی تحریر بن کر کاغذ پر عکس بناتی ہیں۔
میں نے بشریٰ کو فون کرکے خبر کی تصدیق کی اور آخری دیدار کے لیے اپنے شوہر کے ساتھ جاوید صاحب کے گھر گئی اور جاوید صاحب کا چہرہ دیکھ کر زندگی کی بہار اور موت کی خزاں میں فرق دیکھنے لگی۔ ابھی پندرہ دن پہلے ہی تو جاوید صاحب اپنے بیٹے جہانزیب کے ساتھ میرے ہسپتال میں مجھ سے اس بات کا شکریہ ادا کرنے آئے کہ میں نے ان کی کتاب کی تقریب رونمائی (جو کچھ دن پہلے نیشنل آرٹس کونسل ڈیرہ غازیخان میں ہوئی تھی )میں ان پر اچھا مضمون پڑھا۔ وہ اس دن بہت ہشاش بشاش تھے اور آج ان کا خزاں چہرہ دیکھ کر غم کا بوجھ دل پہ پتھر سا بن گیا۔
تھل اور روہی کی اداسی کو لفظوں کا پیرہن دینے والے اس شاعر نے اپنی رخصتی کا وقت بھی ایسا چنا جب ساری دنیا عید کی خوشیوں کو منانے کی تیاریوں میں مصروف تھی اور جب چاند رات میں کتنے ہی بچھڑے ساتھی اپنے بچھڑوں سے ملنے کی آس لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔
جاوید صاحب سے میری پہلی ملاقات میری پہلی کتاب ’’پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘ کی اشاعت کے بعد ڈاکٹر غنی عاصم صاحب کی طرف سے منعقدہ ایک ادبی تقریب میں ہوئی۔ جاوید احسن جب میری کتاب کی اشاعت پر مبارکباد دینے کے لیے میرے ہسپتال آئے اور میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ میرے ٹوٹے پھوٹے لفظوں کو سدھارنے میں میری مدد کیا کریں۔ انہوں نے حامی بھر لی، مگر پھر میں اپنی چند غزلوں کی اصلاح کے بعد یہ سلسلہ اپنی پروفیشنل (طبی) مصروفیات کی وجہ سے برقرار نہ رکھ سکی۔ اسکے با وجود جاوید صاحب ہمیشہ میرے نئے کلام کی اشاعت کے بعد مجھے مبارکباد دینے آتے اور میں ان کے بڑے پن کی معترف رہتی۔
میں ادب کی دنیا میں بالکل نووارد اور اس کے نشیب و فراز سے اور بھول بھلیوں سے بالکل نا آشنا۔ اور ان بھول بھلیوں میں راستہ تلاش کرنے کے لیے میں نے جب بھی جاوید صاحب کو آواز دی تو انہوں نے نہایت خلوص اور مشفقانہ طریقے سے میری مدد کی۔ وہ میرے لیے صرف ایک استاد ہی نہیں بلکہ ایک بزرگ اور والد کی سی حیثیت رکھتے تھے۔ میں نے کسی بھی ادبی تقریب میں شرکت کرنا ہوتی تو میں ان سے مشورہ ضرور کرتی اور وہ مجھے مخلصانہ طریقے سے گائیڈ کرتے کہ مجھے کہاں جانا چاہیے اور کہاں نہیں اور مجھے کوئی بھی بڑی کا میابی ملتی تو بہت خوش ہوتے۔ بشری اور میں ان کی ادبی اولاد کی طرح تھے۔ بشری کو بار بار چھیڑتے کہ نجمہ اتنی مصروف ہونے کے باوجود بھی باقاعدہ لکھ رہی ہے تم کیوں نہیں لکھتی۔ اب ہم دونوں کس سے پوچھیں گی کہ ہمیں کہاں جانا چاہیے، کہاں نہیں۔ جب گلستان ادب کا مالی ہی نہیں رہا تو پھول کیا کریں؟
جاوید احسن یکم دسمبر 1948ء کو احمد خان سدوزئی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ نے ایم اے اردو اور ایم اے سرائیکی کیا۔ 1960ء سے شاعری کررہے تھے۔ نیشنل سنٹر ڈیرہ غازی خان میں بطور پروگرام منیجر تعینات رہے ۔ ’’جمال صحرا‘‘ اردو شاعر ی پر مشتمل کتاب 1991ء کو شائع ہوئی۔ حکومتِ پنجاب نے ان کی کتاب ’’سرائیکی ثقافت‘‘ پر انہیں بہترین کتاب کے ’’لاہور ٹرسٹ ایوارڈ‘‘ سے نوازا ، اور اسی کتاب پرمسعود کھدر پوش ایوارڈ اور دوسرے ایوارڈز میں ’’سرائیکی سانجھ لیہ‘‘ایوارڈقابل قدرہیں۔
دوسری کتابیں ’’فی احسن تقویم‘‘ اور ’’لوح شفاعت‘‘ ہیں۔ وسیبی حالات ہوں یا ملکی یا بین الاقوامی حالات جاوید احسن نے ہر موضوع پر بڑے مفصل انداز میں لکھا ہے۔ جاوید احسن نے اپنی شاعری میں بڑی مہارت سے رومانی، معاشرتی، اخلاقی اور دیگر موضوعات پر شعری تصویروں میں بڑے دلفریب انداز میں رنگ بھرے ہیں۔ انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اورمعروف شاعروں کی صف میں شامل ہوگئے۔
۔ چشم غزال صحرائی جمالیات کا بھی مرکزی حوالہ ہے بلکہ یہ کہنے میں مضائقہ نہیں کہ چشم غزال کے بغیر جمالِ صحرا کی تکمیل ممکن نہیں۔ صحرا اپنے اندر جو وسعت رکھتا ہے وہی وسعت ہمیں جاوید احسن صاحب کی شاعری میں بھی ملتی ہے۔ تہہ در تہہ معانی، غزل کا خاص آہنگ اور جذبوں کا بھرپور اظہار ان کی شاعری کی بنیادی خوبی ہے۔ صحرا کی ویرانی، سورج کی تابانی اور اشکوں کی طغیانی اور اس کے ساتھ ساتھ پریم کہانی ان کی شاعری سے جھلکتی ہے۔
ہم نے دیکھے خواب سہانے، خالی خواب جوانی میں!
سب قصے ہیں فرضی بابا، اپنی پریم کہانی میں
وہ بھی نیل گگن سے اترے جھیل کے گہرے پانی میں
ہم بھی گھنٹوں گھنٹوں ڈوبے اشکوں کی طغیانی میں
حالات و واقعات کا وہی تناظر جس کو شاعر نے کھلی آنکھوں سے دیکھا اور معاشرے کی بدلتی ہوئی اقدار، سماجی حالات، سیاسی انتشار اور بے یقینی کی جس کیفیت سے شاعر گذرے ۔ ان تمام کیفیات اور محسوسات کو لفظوں کا ملبوس عطا کرکے آپ نے قاری کو بھی شریک سفر کرلیا اور آپ کے کلام میں کہیں بھی مایوسی کا دخل نہیں۔
قوس قزح کے رنگ ہیں حسنِ خیال میں
صحرا سمٹ کے آگیا، چشم غزال میں
ان کی شخصیت میں عجیب سی طمانیت بھری ہوئی تھی حالانکہ انہوں نے نامساعد حالات میں زندگی گزاری مگر جب بھی ان سے بات ہوئی تو ہمیشہ زندگی کے مثبت پہلو پر بات کرتے اور اطمینان ظاہر کرتے۔
جاوید ہر وجود کا اپنا ہے مرتبہ
ہر چیز بے مثال ہے اپنے جمال میں
وہ اپنی غزلوں میں جہاں روہی اور دامان کی شان بیان کرتے ہیں وہیں ان کے کلام میں ہمیں تھل کی آن بان بھی دکھائی دیتی ہے۔ ان کی شاعری کا بنیادی آہنگ دراسل دھرتی کے ساتھ ان کی محبت کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی زمین اور وسیب سے اپنا تعلق برقرار رکھا اور اسی مناسبت سے صحرا، تھل، ریت، پیاس، دامان، سلیمان اور اسی طرح کے کئی لفظ ان کی شاعری میں خاص معنویت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں پاکستانی تہذیب اور اپنے وسیب کی خوشبو رچی بسی ہوئی ہے۔ دھرتی سے پیار ان کی ذات کا حصہ بن چکا ہے اور ذات کا یہی اظہار ان کا پیرائیہ اظہار بھی ہے۔
جاوید احسن کا یہ کمال ہے کہ وہ اپنے دکھوں کو دھرتی کے دکھوں کے ساتھ ہم آہنگ کرلیتے ۔ یوں ان کا دکھ صرف ان کی ذات تک ہی محدود نہیں رہتا۔ بلکہ ان کا کلام پورے معاشرے کی آواز بن جاتا ہے۔ جبر کا نظام ہو معاشی یا معاشرتی ناہمواریاں، اخلاقی دیوالیہ پن ہو یا سیاسی زبوں حالی، ان کی شاعری میں تمام موضوعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ان کی نظر میں شاعری صرف لفظوں کا کھیل نہیں بلکہ فکر و نظر کی وہ گہرائی اور گیرائی ہے جو شعور کو بالیدگی عطا کرتی ہے۔
جاوید احسن نے وطن، ملت، معاشرے کے علاوہ بین الاسلامی، عالمی و آفاقی موضوعات پر بڑی تفصیل سے اظہارِ خیال کیا ہے۔ ان کا مطالعہ نہ صرف ذوقی مسرت فراہم کرتا ہے بلکہ تفکر حیات اور عصری حیات سے بھی بھرپور ہوتا ہے۔

آپ متاع درد کے ساتھ ساتھ مزاجِ قلندرانہ بھی رکھتے جس کے بغیر کوئی شاعر عظمت حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی اہل قلم مسندِ دانشوری پر جلوہ افروز ہوسکتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ادبی لحاظ سے ڈیرہ غازیخان یتیم ہوگیا ہے۔ جاوید احسن ڈیرہ غازیخان کے نو آموز شعراء کے لیے ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتے تھے۔ انتہائی پر خلوص اور شفیق انسان تھے جن سے بحیثیت شاعر ہی نہیں بحیثیت انسان بھی اگر کوئی مشورہ لیا جاتا تو انتہائیخلوص کے ساتھ اپنے مشورہ سے فیض مند کرتے۔ ان کا شمار ایسے قلمکاروں میں ہوتا جو کسی ستائش کی پرواہ کیے بغیر علم و ادب کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔ بلاشبہ ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اس دھرتی کوفخر ہے اور ایسے ہی لوگ دھرتی کے حقیقی وارث ہوتے ہیں۔

javed ehsan


Facebook Comments