عورت اور عورت ہے ”بشری اعجاز


عورت اور عورت ہے

پھول ،خوشبو اور تارہ کا مسودہ میرے ہاتھ میں ہے۔۔۔ جسے دیکھتے ہوئے سنسکرت کے رومانی شاعر امارو کی نظم یاد آرہی ہے۔۔۔
جس کا عنوان۔۔۔ عورت اور عورت ہے۔۔۔!
ابھی تھوری دیر ہوئی کہ وہ مجھے سدا کے لئے چھوڑ گیا
لیکن میں ہمت سے کام لوں گی
اور کوئی بھی میری ناامیدی کو دیکھ نہ پائے گا
میں مسکراتی ہوں
میں تو مسکرا رہی ہوں
تمہاری مسکراہٹ میں ویسی ہی اداسی ہے
جیسی اس صبح میں
جو کسی آتش زدہ گاؤں پر نمودار ہوئی ہو۔۔۔
مجھے ڈاکٹر نجمہ کی مسکراہٹ کے پیچھے چھپی اداسی دیکھنے کا موقع تو نہیں ملا۔۔۔مگر پھول خوشبو اور تارہ کے مسودے کو دیکھتے ہوئے نجانے کیوں مجھے اس پر عورت اور عورت کا گمان گزر تا رہا ۔۔۔یعنی عورت کا عورت سے مکالمہ۔۔۔!
عورت بھی وہ جو ڈاکٹر ہے، ماں ہے ،فرماں بردار بیٹی اور بیوی ہے، مگر اس کی ذات کے کچھ حصے شاید ان تمام حیثتوں کے درمیان ان بوجھے۔۔۔ ان کہے رہ گئے ہیں
ہم عورتوں کے ساتھ اکثر یہی ہوتا ہے بظاہر مکمل۔۔۔ اندر سے ٹوٹی اور بکھری ہوئیں۔۔۔ کسی پرانے درخت کی جروں کی طرح درد کی زمین میں دور دور تک پھیلی ہوئیں۔۔۔
کسی حل نہ ہو سکنے والے معمے کی طرح ان بوجھی۔۔۔، پرانی حویلیوں کے دالانوں کے پیچھے دبکی ان تنگ و تاریک کوٹھڑیوں جیسی۔۔۔ جن میں دن کو بھی اندھیرا ہی چھایا رہتا ہے۔۔۔
سورج کی ایک بھولی بھٹکی کرن بھی نہیں جاگتی جن کے اندھے اندھیروں میں۔۔۔
لہٰذا دن میں بھی چراغ جلائے بغیر وہاں سے کچھ ڈھونڈ نکالناممکن نہیں ہوتا۔۔۔ یہی وجہ۔۔۔اس نے شاعری کا چراغ جلا لیا۔۔۔ اور ذات کی تاریک کوٹھڑی میں جا گھسی۔۔۔
ابھی تک لوٹی نہیں۔۔۔وہیں کھڑی کہہ رہی ہے۔۔۔
جرم بس یہ تھا کہ منزل کا تعین کر لیا
پھر سدا رہنا پڑا ہم کو سفر کے درمیاں
اس سفر کی ابتدا کیسے ہوئی؟بظاہر
ایک ڈائری سے جس میں چھپ چھپ کر وہ تمام ایسی باتیں لکھتی رہی۔۔۔ جو کسی سے کہہ نہ سکتی تھی ۔۔۔کسی کو سنا نہ سکتی تھی۔۔۔
بھول جانے والی باتیں۔۔۔اور بھول کر بھی یاد رہ جانے والی باتیں۔۔۔! وہ باتیں جو راتوں کی تنہائیوں میں چاند کی اداسی کے کاغذ پر سرگوشیوں کی صورت لکھی جاتی ہیں۔۔۔ اور پھر ان سرگوشیوں کو دل کے پلو سے باندھ لیا جاتا ہے۔۔۔ احتیاط سے۔۔۔ حفاظت سے کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے۔۔۔! پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔۔۔ ڈائیری اسکیباقاعدہ رازدان بن گئی۔۔۔ بعد میں جب اس راز سے پردہ اٹھاتو۔۔۔
انکشاف کی طرح۔۔۔اسکی پہلی کتاب پھول سے بچھڑی خوشبو۔۔۔ سب کیسامنے آئی۔۔۔
بالکل ایسے ہی جیسے آج سے بیس برس پہلے میں نے ڈائیری میں سفرِ حج کے تاثرات رقم کئے تھے تو۔۔۔ مجھ پر اک انکشاف کی طرح سفر نامہِٗ حج عرضِ حال اترا تھا۔۔۔اور مجھے۔۔۔ دفعتاََ ادراک ہوا تھا۔۔۔ کہ میری ذات کے بہت سے ان کہے حصوں میں سے یہ صرف ایک حصہ تھا۔۔۔ اور یہ کہ ابھی زات کی تاریک کوٹھڑیوں میں انگنت چراغ جلنے کے منتظر ہیں۔۔۔ جو بعد میں آہستہ آہستہ جلتے چلے گئے۔۔۔!
ایسے ہی جیسے۔۔۔ڈاکٹر نجمہ کی ذات کی تاریک کوٹھڑی میں رکھاہوا۔۔۔ یہ چوتھا چراغ۔۔۔
جسکے متعلق خود ڈاکٹر نجمہ کہتی ہیں۔۔۔ اگر میں مصروف ڈاکٹر نہ ہوتی تو شاید اب تک میری پندرہ بیس کتابیں آ چکی ہوتیں۔۔۔!
میں ڈاکٹرنجمہ کی اس بات سے سو فیصد اتفاق کر تی ہوں۔۔۔کہ اپنی پرو فیشنل لائف میں جس dedicatio سے وہ کام کرتی ہے۔
اور اپنی توانائی ، اور توجہ جس طرح اپنے مریضوں پر پوری پوری نچھاور کر دیتی ہے۔اس کے بعد شاعری کو وقت دینا اور پوری دیانت داری سے اپنی ذات کی دریافت کے سفر پر روانہ ہونا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ایسا وہی کر سکتے ہیں ..جنہیں لگن لگی ہوتی ہے لگن خود کو بوجھنے کی۔۔۔اپنا بوجھا ہوا …سلیقے سے زمانے کے سامنے پیش کرنے کی اور پورے وقار کے ساتھ۔۔۔ اپنے لکھے ہوئے ہر لفظ کو اون کرنے کی چاہے زمانہ کچھ بھی کہے کچھ بھی کرے۔۔۔ اور یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب کوئی تخلیق کار پوری سچائی سے خود کو بیان کرتا ہے اور اس ضمن میں کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوتا۔۔۔!
میں پہلی دفعہ جب ڈاکٹر نجمہ سے ملی تو یہ وصف میں نے اسکی زات میں نمایاں دیکھا اس نے نہایت دھیمے لہجے میں پوری سچائی سے بتایا ۔۔۔ اس کا تعلق جس قبیلے سیہے۔۔۔ وہاں دور دور تک شا عر تو کیا ڈاکٹر بھی کوئی نہیں۔۔۔!
اور یہ کہ اس قبیلے کی لڑکیاں آنکھین بند رکھتی ہیں۔۔۔!
انہیں آنکھیں کھولنے کی اجازت نہیں۔۔۔
انکی زندگیوں کے فیصلے دالانوں اور حجروں میں بیٹھ کرگھر کے مرد کیا کرتے ہیں۔۔۔
انہیں صرف اطلاع دی جاتی ہے۔۔۔
اور اس اطلاع کے ہمراہ یہ ہدایت ایک وارننگ کی طرح نتھی ہوتی ہے۔۔۔
کہ سرخ جوڑا پہن کر ڈو لی چڑ ھنا تو جاتے ہوئے اپنے قدموں کے نشان مٹاتی جانا۔۔۔!
سو اس نے بھی ایسا ہی کیا۔۔۔ ڈولی چڑھی تو مڑ کر پیچھے کبھی نہ دیکھا۔۔۔
سفر مسلسل سفر۔۔۔قیام کہیں نہیں۔۔۔
اس سفر میں اسکی روح پر کیا گزری ،اس کے دل نے کیا کچھ سہا۔۔۔
اور ایک حساس انسان ہونے کی وجہ سے زندگی کامشاہدہ کیسا رہا۔۔۔
اسکی شاعری یہ سب کچھ تو نہیں بتاتی البتہ۔۔۔ اتنا ضرور کہتی ہے۔۔۔
کہ اک ہمہ وقت اداسی اور تنہائی اس کے ہمراہ رہی۔۔۔ جس سے اس کا ہمیشہ مکالمہ رہا۔۔۔
اس وقت بھی جب وہ شب کی آخری ساعتوں میں خود سے ہم کلام ہوئی اور اسوقت بھی۔۔۔ جب کسی بھیڑ بکری نما عورت کی ڈونتی نبضوں کو بحال کرنے میں اسکی مسیحائی نے اپنی پوری قوت لگا دی۔۔۔ اس وقت بھی جب وہ اپنی پہلی نظم۔۔۔ ملاقات آخری لکھتے ہوئے، درد کی اک اچھوتی واردات سے گزر رہی تھی۔۔۔ اور اس وقت بھی۔۔۔ جب عمر اور حمزہ نے اس کی گود میں آکر اسے ماں بننے کی آسودگی سے ہم کنار کیا تھا۔۔۔ کہ ہر آسودہ اور ناآسودہ جزبے کا تعلق انسان کی جزباتی دنیا سے ہے۔۔۔ اور ایک سچے تخلیق کار کی جزباتی دنیا کم وبیش ایسی ہی ہوتی ہے ۔۔۔ ہمہ وقت زیروزبرسی۔۔۔ جس کا کسی ایسی کیفیت سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔۔۔جس میں ٹھہراؤ ہو۔۔۔ اور آرام جیسا کوئی احساس ہو۔۔۔
ہمہ وقتی اضطراب اور بے چینی، جس کا اظہار داکٹر نجمہ کی شاعری ہے۔۔۔
حالانکہ بظاہر اس کی ذات میں ٹھہراؤ بھی ہے۔۔۔ اور آرام بھی۔۔۔ مگر زیریں سطح پر دبا دبا احتجاج، چھپی چھپی بغاوت۔۔۔ صاف دکھائی دیتی ہے۔
اگرچہ ڈاکٹرنجمہ نے نہایت عقلمندی سے اس احتجاج، اس بغاوت کو سات پروں میں چھپایا ہوا ہے مگر اسکی شاعری اس کا چیخ چیخ کر اعلان کرتی ہے۔۔۔
اور وہ کہتی ہے۔
سانس لینے سے بھی اکثر روک دیتے ہیں ہمیں
جان لیوا ہو چلا ہے خیر خواہوں کا حصار
اور
دشمنوں سے تو مجھے خوف نہیں تھا لیکن
رہ میں اپنوں کی مگر گھات ،نہ پوچھو میاُ
وہ محبت کی شاعر ہے۔
ہر شاعر محبت کا شاعر ہی ہوتا ہے۔ چاہے وہ محبت جنسِ مخالف کی ہو۔
مخلوقِ خدا کی۔۔۔ یا پھر خود خدا کی۔۔۔
کہ شاعر کی تخلیقی کائنات میں نفرت کی کوئی جگہ ہی نہیں۔۔۔
وہ محبت کے علاوہ کچھ کر رہی نہیں سکتا۔
چنانچہ یہ محبت تمام مضامین میں اسکی ہم رکاب ہوتی ہے۔
ڈاکٹر نجمہ کی شاعری میں یہ محبت ہجر کے گاڑھے شیرے میں ڈوبی ہوئی ہے۔
اسی لئے ٹپ ٹپ ٹپکتی ہے۔۔۔ پورے پکے ہوئے آم کی طرح۔۔۔
آدھے ادھورے آنسو کی طرح۔۔۔
اس موتی کی طرح جسے سیپ کسی بے اختیاری لمحے میں سمندر سے اچانک اگل دیتی ہے۔۔۔!
میں نے اس کی شاعری میں جا بجا یہ کیفیت محسوس کی ہے۔ جس کی آنچ میں کبھی وہ شعر پرو رہی ہے اور کبھی نظم بن رہی ہے۔
یہی کیفیت سچی شاعری کا جوہر ہے۔ جس کے بغیر نہ تخلیق مکمل ہوتی ہے، نہ تخلیق کار۔۔۔
ڈاکٹر نجمہ جس عمدگی سے اس کیفیت کو اپنی شاعری میں سمو رہی ہیے۔
اسے دیکھتے ہوئے اس کے شعری سفر کی کامیابی کی امید روشن لگنے لگتی ہے۔
میری دعا ہے وہ اس سفر میں اس مقام پر پہنچ جائے۔
جہاں پہنچ کر منزلیں آسان ہو جاتی ہیں۔
اور مسافر تمام تر تھکن کے باوجود سرشاری جیسی کیفیت میں یہ کہہ اٹھتا ہے۔
نہیں ملوں گی کسی بھی وصل آشنا سفر میں
میں ہجر موسم کی شدتوں میں تمہیں ملوں گی
اب بتائیں ایسے شعر کہنے والی شاعرہ کی شاعری پر مجھے عورت اور عورت کا گمان کیسے نہ گزرے۔۔۔
اور اس کی مسکراہٹ اس مسکراہٹ سے مشابہ کیونکر نہ لگے۔۔۔
جو کسی آتش زدہ گاؤں پر اچانک نمودار ہوتی ہے!
ہو جزبے ،ہر اظہار میں نمایاں ہے ..وہ ہے اس کا عورت ہونا۔۔۔
بشری اعجاز[لاہور]


Facebook Comments