گفتگو۔خبریں سنڈے میگزین ۔رازش لیاقت پوری


ڈاکٹر نجمہ شا ہین کھو سہ سے گفتگو 

ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ،انہوں نے ابتدائی تعلیم کیلئے پرائمری سکول جندانی والا میں داخلہ لیا اور سوم کلاس میں تھیں کہ اپنے گاؤں سے نانی کے گھر ڈیرہ غازیخان شہر میں منتقل ہوئیں اور دو سال تک نانی کے گھر رہے اور پرائمری کا امتحان پاس کیا۔ پھر اسی شہر سے والدین کے منتقل ہونے کے بعد گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سے میٹرک اور ڈگری کالج سے ایف ایس سی کی اور نشتر میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس میں داخلہ لیا۔ سکول مذکورہ میں نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں اچھی کارکردگی کی بنا پر ان کا نام پرنسپل آفس بورڈ پر آویزاں کیا گیا۔ وہ اپنے آبائی علاقہ ٹرائبل ایریا کی واحد لڑکی تھی جس نے نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ میڈیکل جیسے خوبصورت شعبے میں جاکر انہیں اپنی صلاحیتوں کو منوانے اور اپنے پسماندہ علاقہ کے لوگوں کی خدمت کرنے کا بھی موقع ملا۔ان کی اب تک کئی کتب منظر عام پر آچکی ہیں ،ان سے ہونے والی گفتگو نذرقارئین ہے 

سوال :آپ نے موجودہ کامیابیوں کا سفر کیسے طے کیا ،کچھ اپنی داستان تو بتائیں؟

جواب: جی اس میں میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد اپنے والد کی دل و جان سے مشکور ہوں کہ جنہوں نے خاندان کے 
ہزار رکاوٹیں ڈالنے کے باوجود مجھے بیٹوں کی طرح پالا اور میری تعلیم میں ہر موڑ پر میرا ساتھ دیا۔ آج میں جو 
کچھ ہوں صرف اور صرف اپنی ماں کی قربانیوں اور باپ کی محبتوں کی بدولت ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے 
ٹرائبل ایریا میں آج بھی لڑکی کو گھر کی بھیڑ بکری سے زیادہ اہمیت نہیں۔ ایسے ماحول میں میرا ڈاکٹر بننا کسی 
معجزے سے کم نہیں تھا۔ باقی جہاں تک شاعری میں تعاون کا تعلق ہے تو ابھی تک میں ایک لڑائی لڑرہی ہوں۔ 
اس شعبے کو منوانے کی۔ ابھی بھی ایک شاعر کی حیثیت سے پورے خاندان کی مخالفت کا سامنا ہے۔ میرا لکھنا 
کسی کو بھی پسند نہیں۔ میں خود بھی کوشش کرتی ہوں کہ ایسی تقریبات یا فنکشن یا مشاعروں میں نہ جاؤں جہاں 
میری فیملی پسند نہ کرے۔ میں صرف چند ایک ایسی تقریبات میں جاتی ہوں اور جو میری کتابوں کے حوالے 
سے منعقد کی جارہی ہوں یا پھر چند ایک بڑے مشاعروں میں ، جہاں مجھے شوہر کی اجازت مل جائے اور وہ 
جانے کیلئے بھی میرا ساتھ دیں۔ تمام دن بھر کے کاموں کے بعد کوئی کتاب پڑھنا یا ڈائری لکھنا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ یوں سمجھیں ڈائری میری سہیلی بن چکی تھی اور آہستہ آہستہ ڈائری میں لکھے لفظ شاعری کی صورت اختیار کر گئے۔

یوں تو میں 1996 سے لکھ رہی ہوں۔ بلکہ اس سے پہلے بھی میری چھوٹی موٹی کاوش نشتر میڈیکل کالج کے ادبی میگزین کا حصہ بنتی تھیں۔ لیکن میں اپنی پہلی نظم 1996میں لکھی ہوئی ’’ملاقات آخری‘‘ کو قرار دیتی ہوں۔
2007 میں گائنی کی کانفرنس میں جاتے ہوئے میں ایک حادثے کا شکار ہوئی اور دو ماہ تک مکمل طور پر بستر کا حصہ بن گئی۔ ایک مصروف بندے کیلئے فراغت کسی سزا سے کم نہیں ہوتی ۔ سو میں نے اُن دو ماہ میں اپنی ڈائری کو ترتیب دی اور اُس میں نثر اور شاعری علیحدہ علیحدہ کیں۔ ایک بزرگ شاعر چاچا رمضان طالب باقاعدہ میری عیادت کو آتے تھے۔ انہوں نے ضد کر کے اور میری فیملی سے اجازت لے کر میری شاعری والے حصے ایک کتاب کی صورت میں شائع کرائے جس کا نام میں نے اپنی نظم ’’پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘ سے لیا۔ یوں ایک ڈاکٹر ایک شاعرہ کے روپ میں سامنے آئی۔اگر میں ایک مصروف ڈاکٹر نہ ہوتی تو شاید اتنے عرصے میں میری پندرہ بیس کتابیں آچکی ہوتیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ذمہ داری نبھاتے ہوئے کوئی خوبصورت خیال ذہن میں آتا ہے مگر میں اُسے مناسب وقت پر کاغذ پر اتار نہیں سکتی جس کی وجہ سے بہت کچھ لکھنے کو رہ جاتا ہے۔ اور ایک چیز طے ہے کہ اگر وقت پر نہ لکھیں تو وہ خیال اُسی صورت میں موجود نہیں رہتا۔محو ہو جاتا ہے پھر جتنا بھی سوچیں وہ چیز نہیں رہتی۔شاعری کا سفرایک خاتون شاعرہ کیلئے کانٹوں سے بھرپورراستہ ہے۔

ایک ڈاکٹر کے باوجود مجھے بھی ایک شاعرہ ہونے کے ناطے سے بے پناہ رکاوٹوں اور یہاں تک کہ خاندان کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاندان کی مخالفت کے ساتھ ساتھ اگر باہر بھی دیکھیں تو ایک خاتون شاعرہ کیلئے کوئی اچھے حالات نہیں اُسے ہر طرح کے تنقیدی سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے جب ایک خاتون شاعرہ سامنے آتی ہے تو دو چار لائنیں لکھنے والا ہر مرد اُس خاتون کی شاعری کا تنقید نگار یا اصلاح کار بن جاتا ہے۔ اور آئے روز اُس شاعرہ کو اس مدد کی بن مانگے آفر مل رہی ہوتی ہے کہ اگر آپ کو کہیں اصلاح کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔ 
مجھے تو اس بات پر حیرت ہوتی تھی جب میرے کانوں تک یہ بات پہنچتی کہ آپ اتنی مصروف ڈاکٹر ہیں۔ آپ کو کون شاعری لکھ کے دیتا ہے۔ اس طرح کی باتوں پر بہت غصہ بھی آتا اور دکھ بھی۔ کہ بھلا مجھے میرے علاوہ کون لکھ سکے گا۔ کون میری سوچوں اور جذبوں کو اُسی طرح سے صفحہ قرطاس پر بکھیرے گا جو میں خود کر سکتی ہوں۔ 

س: آپ کی کوئی پسندیدہ اپنی تخلیق؟ مزید کتنی کتب زیر طبع ہیں؟

ج: ایک تخلیق کار جب کوئی تخلیق کرتا ہے تو وہ ایک کرب اور تخیل سے گزرتا ہے اور اسے اپنی ہر تخلیق دوسری سے بڑھ کر لگتی ہے جیسے ایک ماں کو اپنا ہر بچہ پیارا ہوتا ہے اور وہ یہ کبھی نہیں کہہ سکتی کہ اُسے کسی ایک بچے سے زیادہ پیار ہے۔ اسی طرح تخلیق کار کو بھی اپنی تخلیق پیاری ہوتی ہے مجھے بھی اپنا سارا کلام اور تخلیق پیاری ہے۔ چاہے وہ پھول سے ’’بچھڑی خوشبو ہو‘‘، ’’میںآنکھیں بند رکھتی ہوں‘‘ یا ’’اورشام ٹھہر گئی؛یا ’’پھول خوشبو اور تارہ‘‘ ایک ناول اور ایک شاعری کی کتاب اور ایک نثر کی کتاب زیر عمل ہیں
ڈاکٹری میراپیشہ ہی نہیں بلکہ عشق بھی ہے اورشاعری تحلیل نفسی(کتھارسس) کاذریعہ۔۔۔ میرے لیے دونوں بہت اہم ہیں۔اوراحساس کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں ہوتی۔

سوال: شاعری کیوں کرتی ہیں؟ کیا شاعری سماج سدھارنے کا ذریعہ ہے یا ذاتی کتھارسس کا؟

جواب: جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے تو میرا خیال ہے کہ میں اپنی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ جواب دے چکی ہوں 
کہ میں شاعری کیوں کرتی ہوں۔ شاعری میری ذات کا اظہار بھی ہے اور شکست و ریخت کا شکار ہونے والے 
اس معاشرے کا نوحہ بھی۔ لوگوں کو حیرت ہوتی ہے اور وہ یہ سوال مجھ سے بار بار پوچھتے ہیں کہ ڈاکٹر ہونے کے 
ناطے اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے شاعری کیلئے / کیسے وقت نکالتی ہو تو جواب صرف اتنا سا ہے کہ شاعری 
میرے لیے زندگی کی علامت ہے اور زندہ رہنے کیلئے سانس لینا ضروری ہے اور سانس لینے کیلئے وقت نہیں 
نکالنا پڑتا۔اب تو وہ شاعری زیادہ پسند کی جاتی ہے جس میں سماجی مسائل کا بھی اظہار ہو،اب شاعر بھی عشقیہ شاعری کرنے کے بجائے سماجی مسائل پر مبنی شاعری کررہے ہیں ، 
سوال: اپنا پسندیدہ شعر:
چھوڑ یہ بات ملے زخم کہاں سے تجھ کو ،
زندگی اتنا بتا کتنا سفر باقی ہے

سوال: آپ کا تعلق جس گھرانے یا قبیلے سے ہے اس میں ادبی محرکات کم دیکھے گئے پھر آپ کیسے؟ 

جواب:جی ایسا ہی ہے ہمارے قبیلے میں شاعری تو کجا ایک لڑکی کا پڑھنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا،،لیکن اب تعلیم کو کچھ ترجیح حاصل ہو گئی ہے میری پہلی کتاب میری وہ ڈائری تھی جو میں عملی زندگی میں آنے کے بعد دن بھر کی 
تھکاوٹ کے بعد لکھا کرتی تھی جو ایکبار ہمارے شہر کے ایک بزرگ شاعر جو ایکیسیڈنٹ کے بعد میری عیادت کو 
آتے تھے پڑھنے کیلئے لے گئے اور پھر انہوں نے وہ ڈائری کتاب کی صورت میں شائع کراکے مجھے تحفتاً دی، اس کتاب کی تقریب رونمائی پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ڈیرہ غازیخان نے رکھی اور بہت سراہا جس کی وجہ سے مجھے بھی اچھا لگنے لگا کہ 
میں لکھوں۔ مجھے لگا کہ لکھنے سے زندگی کے حبس زدہ موسم میں جیسے تازہ ہوا کا جھونکا مل جاتا ہوں، جب میں لفطوں 
کو کاغذوں پر جوڑتی اور انہیں مجسم شکل دینے کی کوشش کرتی تو مجھے لگتا کہ تھکن اور کٹھن سے چور راہوں میں یہ 
لفظ ایک مجسم روپ لیکر میرے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ تب تنہائی گھٹن اور حبس کا احساس قدرے کم محسوس 
ہوتا۔میں نے ادبی تنظیم آنچل !اپنے خطے کی خواتین کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اس خطے کی لکھاری خواتین کو یکجا 
کرنے اور نئی لکھنے والی خواتین کی حوصلہ افزائی اور ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کیلئے ایک ادبی تنظیم ’’انچل‘‘ 
کی بنیاد رکھی اور اس کے تحت متعدد ادبی پروگرام خواتین کیلئے کراچکی ہیں۔

سوال: خواتین کے آجکل کیا مسائل ہوتے ہیں ،خاص طور پر جنوبی پنجاب کی خواتین کے؟ 

جواب: ترقی پذیر ممالک میں جن میں ہمارا ملک بھی شامل ہے خواتین کی کم عمری میں ماں بننے اور پیچیدگیوں کا شکار ہونے 
کے باعث ہلاکت کی شرح زیادہ ہے۔ نو مولو د بچے کی صحت میں ماں کی صحت کا کردار بہت اہم ہے”زچگی کے دوران ہونے والی اموات میں کئی عوامل کار فرماہوتے ہیں،ان میں بلڈ پریشر میں اضافہ سر فہرست ہے ، بعض اوقا ت لواحقین زچہ کو ہسپتال میں اس وقت پہنچاتے ہیں جب دائی کیس خراب کرچکی ہوتی ہے یا پھر زچہ کا با قاعدہ سے چیک اپ نہیں کرایا جا تا بلڈ پریشر میں اضافہ ہونے سے زچگی کے دوران کئی پیچید گیاں بڑھ جاتی ہیں۔زچہ کو جھٹکے لگنے لگتے ہیں جس سے زچہ اور بچہ دونوں کیلئے خطرات پیدا ہو جاتے ہیں خون کا بہہ جا نا بھی زچگی کے دوران مو ت کا ایک اہم عنصر ہے۔

،عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق ایک صحت مند جو ڑے کو ایک سال کا وقت دینا چاہیے، اس دوران قدرتی طور پر عورت حاملہ ہو سکتی ہے لیکن اگر ایسا نہ ہو تو پھر مرد اور عورت دونوں کو ڈاکٹر سے رجو ع کرنا چاہیے ،اس کے بہت سے مسائل کا علاج ممکن ہو تا ہے۔بعض اوقات کچھ لا علاج مسائل بھی ہوتے ہیں، مثلاً قدرتی طور پر اعضا ہی موجو د نہیں ہیں ، ورنہ ہر مسئلے کا علا ج ممکن ہے۔ابنا رمل بچے وہ ہو تے ہیں جس کے جسم میں کوئی نقص ہو سکتا ہے ۔ ہونٹ کٹے ہوئے ہیں وغیرہ ۔ ان کی پیدائش کی کئی وجو ہا ت ہو تی ہیں ۔ پہلی وجہ تو یہ کہ یہ خاندانی یا مو روثی اثرات ہو سکتے ہیں۔ جس خاندان میں آپس میں شادی کا رجحان ہو تا ہے ان میں ابنارمل بچوں کی شرح بڑھ جاتی ہے ۔بعض اوقات خاندان سے باہر شادی ہونے کی صورت میں بھی ابنارمل بچے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ عورتیں ذیابیطیس کی مریضہ ہوسکتی ہے۔ذیابیطس کی مریضہ کے پیدا ہونے والے بچوں میں ابنارملٹی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ حمل کے ابتدائی ایام میں بچے کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں ہے کہ ذیا بیطس کی ہر مریضہ کے بچے ابنارمل ہوں ۔
خون کی کمی کا شکار خواتین کو کیا کرنا چاہیے؟خون کی کمی میں مبتلا خواتین کو باقاعدگی سے اپنا چیک اپ کرانے کے ساتھ ساتھ فولاد کی گولیاں استعمال کرنی چاہیں ۔ حاملہ خواتین گوشت،انڈا، گندم ، چاول، دودھ اور پھلوں کا استعمال کرتی رہیں تو پیدا ہونے والا بچہ تندرست رہتاہے۔ مجھے روزانہ ایسی کئی مریضوں سے سامنا کرنا پڑ تا ہے جو تعلیم نہ ہونے کے با عث اپنی صحت کی حفا ظت نہیں کر پا تیں،انہیں صحت کے اصولوں سے آگاہی نہیں ہوتی بیشتر خواتین دائیوں کا شکار ہو کر پہنچتی ہیں جب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہوتاہے ۔ایسے میں جس حد تک بھی ہو سکتاہے ان کا علاج کیا جاتا ہے اور انہیں یہ بھی بتا یا جاتاہے کہ ایسی صورت میں انہیں کیا کرنا چاہیے تھا اورآئندہ اگر ایسی صورت حال کا سامنا ہو تو انہیں کیا کرنا چاہیے۔ہمارے پہاڑی اور پسماندہ علاقوں میں حکومت اور این جی اوز مل کر ہفتہ وار میڈیکل کیمپ منعقد کریں ان کیمپوں میں وہاں کے لوگوں کو صحت کے اصول بتائے جائیں ، انہیں مفت طبی سہولت فراہم کی جائے مریضوں کا چیک اپ ہو نا چاہیے تاکہ انہیں بر وقت ہسپتال منتقل یا کسی ماہر ڈاکٹر کو ریفر کیاجاسکے۔

ہمارے علاقوں میں ونی ،کالا کالی اور دوسری دقیانوسی روایات کی وجہ سے سرائیکی وسیب کی خواتین کچلی جارہی ہیں ،ان مسائل کو بھی میں کئی مرتبہ لکھ بھی چکی ہوں ،اب عملی طور پر ان کے خلاف لڑ بھی رہی ہوں تاکہ خواتین کو حوصلہ ملے

سوال؛مضافاتی ادب میں خواتین کی شاعری بارے آپ کیا کہیں گی؟ 

ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ :خواتین اپنی شاعری کے ذریعے ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل میں اپنا بنیادی کردار ادا کر رہی ہیں ۔ظلم ، جبر اور نا انصافیوں کے خلاف ان کی توانا آواز صرف خواتین کو ہی نہیں معاشرے کے ہر طبقے کو حوصلہ دے رہی ہے ۔دبی ہوئی سسکیاں اب چیخ بن کر سامنے آ رہی ہیں اور دنیا کو ان کے مسائل کی جانب متوجہ کر رہی ہے ۔ صدیوں سے زندانوں میں پڑے غلام اب زنجیریں توڑ رہے ہیں ۔وسیب کی یہ خواتین اردو شاعری میں ایک نئے اسلوب کو جنم دے رہی ہیں ایک ایسا اسلوب جو ان کی پہچان بن رہاہے اور جس کے ذریعے ان کی شاعری دور ہی سے نمایاں ہوتی ہے۔ان کے ہاں ہمیں نا آسودہ خواہشیں ،لہو لہان پاؤں ،ریزہ ریزہ خواب اور چلچلاتی دھوپ میں بے سمت سفر تو دکھائی دیتا ہے لیکن ان کی شاعری کی ایک اپنی سمت ہے اور مجھے یقین ہے کہ ان کی شاعری کایہ سفر کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔ایک ایسے ماحول میں جہاں اشاعت و طباعت کوئی زیادہ آسان نہیں ،جہاں محفلوں اور مشاعروں کا ماحول بھی خواتین کیلئے موزوں نہیں اور جہاں قدم قدم پر انہیں گھریلو ،سماجی و معاشرتی رکاوٹوں کاسامنا کرناپڑتا ہے۔اس ماحول میں بھی اگر کچھ خواتین نے اپنے آپ کو منوالیا ہے تو ہمیں ان کی تعظیم کرنی چاہیے اورانہیں سلام پیش کرنا چاہیے۔کیونکہ ہمارے ہاں ابھی تک سرکاری ادارے ادب اور ثقافت پر بہت کم کام کررہے ہیں اس وجہ سے یہان کا ٹیلنٹ ابھی بھی ابھر کر سامنے نہیں آرہا ،پی ٹی وی ملتان نے بھی مایوس کیا ہے ،ریڈیواور ارٹس کونسلیں بھی کبھی کبھار متحرک ہوتی ہیں ،اکادمی ادبیات تو بالکل سو چکا ہے ،وسیب کے ادارے ادبی ھوالے سے کچھ بھی نہیں کررہے انہیں متحرک کرنے کی ضرورت ہے 
ہمارے ہاں ابھی بھی قدیم روایات موجود ہیں۔ میں بہت کچھ کر نا چاہتی تھی لیکن خاندانی روایا ت سے بغاوت نہ کرسکی اور مجھے اسی شعبے تک محدود ہونا پڑا ۔ میں لوگوں سے درخواست کر تی ہوں خصوصاً والدین سے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے ضرو سنواریں تاکہ ان میں زندگی گزارنے کا شعور اجاگر ہو۔وسیب کی عورت کو تھک کر بیٹھ نہیں جاناچاہیئے بلکہ ہمیں مزید متحرک ہونا پڑے گا کیونکہ عمران خان نے جس تبدیلی کا وعدہ کیا تھا وہ ضرور تبدیلی لائیں گے جس سے ہمیں بھی فائدہ ہوگا ،پی ٹی آئی کی حکومت کو چاہیئے کہ وہ وسیب کی خواتین کی بہتری کے لیے ہی کام کریں کیونکہ یہاں کی عورت زیادہ پسماندہ ہے 


Facebook Comments