اُس گلی کے راستے کے اور گھر کے درمیاں


اُس گلی کے راستے کے اور گھر کے درمیاں
ہو گئی تقسیم میں زیر و زبر کے درمیاں

جرم بس یہ تھا کہ منزل کا تعین کر لیا
پھر سدا رہنا پڑا ہم کو سفر کے درمیاں

اے خدا دہکی ہوئی اس آگ سے نکلوں گی کب؟
تھک گئی میں چاک اور اک کوزہ گر کے درمیاں

پھول،کلیاں،خوشبوئیں،مہکے ہوئے وہ راستے
خواب ہو کر رہ گئے ہیں بام ودرکے درمیاں

اب نہ وہ موجیں، نہ طغیانی ، نہ سیلِ آب ہے
لیکن اک کشتی ابھی تک ہے بھنور کے درمیاں

آج تک ہوں بے خبر جانے کہاں ہے روشنی؟
کہکشاں بن کر ملے جو رہ گزر کے درمیاں

اک مسافر کو کسی نے دی تھی منزل کی نوید
خود ابھی تک ہے مگر شام و سحر کے درمیاں

لُٹ گیا اسباب لیکن آرزو باقی رہی
جستجو جاری ہے مجھ میں اورسفر کے درمیاں

میں نے تو شاہین رب سے اور کچھ مانگا نہ تھا
اک طلب تھی اک دعائے مختصر کے درمیاں

راستے کے درمیا ں

Facebook Comments