جب زندگی کے نام پر بے جان ہو گئی


جب زندگی کے نام پر بے جان ہو گئی
میں عشق کے سلوک پر حیران ہو گئی

سب سرحدیں پھلانگ کر عقل و شعور کی
راہِ وفا میں خود سے بھی انجان ہو گئی

جس نے مجھے عطا کیا یہ خامشی کا گیت
اُس کی صدا ہی اب مری پہچان ہو گئی

کرتی رہی ہوں ورد صدا جس کے نام کا
چھینا جب اُس نے نقش تو ویران ہو گئی

دل کب کا جل کے راکھ کا اک ڈھیر بن گیا
چپ چاپ ہر انا پہ میں قربان ہو گئی

مجرم تھی جب وفا کی تو میں نے یہی کیا
اپنے لئے ہی قتل کا فرمان ہو گئی

اپنی وفا پر ناز ہے یوں مجھ کو آج بھی
اُس کی خوشی پہ ہجر کا سامان ہو گئی


Facebook Comments