ڈاکٹرنجمہ شاہین کی شاعری کا رنگ حنائی ہے ۔حناہمیشہ دو رنگوں کا امتزاج ہوتی ہے ۔حیا دار سبز رُتوں کے اندر جذبوں کا سرخ رنگ بھینی بھینی خوشبو دیتا ہے تو غنائی سُر بیدار ہونے لگتے ہیں۔جو سہاگ کی گت پہ ملن کے گئت چھیڑ دیتے ہیں اوروراگ کے موسم میں ہجر کی کافیاں سناتے ہیں۔یہ رنگ سبک ہتھیلی کو سرخی عطا کرتا ہے مگر مقدر کی لکیروں پر کبھی حاوی نہیں ہو سکتا۔پھر بھی حنا کے رنگ کے اندر غنائیت کی جو ادا پنہاں ہے ۔۔وہ کسی اور رنگ میں نہیں ہے۔
حسنِ اتفاق ہے کہ ڈاکٹر نجمہ شاہین مسیحائی کی ڈگر پر نکلی ہے ۔یہ ڈگر تھی تو مشکل مگر اس کے اندر انسانیت کے لئے وقار اور پیار کا انمول خزینہ تھا۔قدرت نے ویسے بھی عورت کے ذمے کوئی نہ کوئی مسیحائی لگا رکھی ہے۔وہ ماں کی صورت میں ہو ، بہن ،بیٹی یا بیوی کی شکل میں ہو۔اُس کا وجود، اُس کا دَم دروداور اُس کا مقصودانسانی زنجیر میں بندھے ہوئے رشتوں کوبڑھاوا دینا اور دوام بخشنا ہوتا ہے۔اس لئے تقدیر نے نجمہ کے ہاتھ میں قلم کے ساتھ نشتر بھی پکڑادیا۔ایک طرف حنائی ہنر عطا کر دیاتو دوسری طرف مسیحائی کی ادا بھی بخش دی۔۔غنائی لہجہ اُس کو شاعری نے دیا۔
قلم اور نشتر کا بڑا قدیم رشتہ ہے۔کبھی نشتر سب دکھوں کی دوا بن جاتا ہے اور کبھی قلم دردکا اندمال بن جاتا ہے۔ڈاکٹر نجمہ شاہین دونوں سے بہت خوبصورت کام لے رہی ہے۔شعوری طور پر وہ انسانیت کی خدمت کر رہی ہے اور لاشعوری طور پر وہ محبت کی خوش رنگ کلیاں چُن کر ان کی مالا پرو رہی ہے۔اس لئے اس کی شاعری خوشبوؤں کی پھوہارلگتی ہے۔ہجر، فراق، انتظار، رَت جگے، اضطراب، بے کلی ،آس، امید سب محبت کے قبیلے میں شامل ہیں۔
محبت دل کی وہ اداسی ہے جو زندہ رہنے کی ترغیب دیتی ہے۔جو دنوں کو شاموں سے ملا کر رکھتی ہے۔۔جو رات کو دئیے کی طرح جلاتی ہے ۔ کبھی کبھی ادراک کے کسی طاقچے میں کوئی شام ٹھہر جاتی ہے ۔۔اور پھر ہر شام اُس پر سے نثار ہوتے ہوئے گذرتی ہے۔
یہ ہجر کا راستہ ہے جس پر میں تنہا تنہا سی چل رہی ہوں
بس اُس کی یادوں کی دھول ہے اور مَیں قطرہ قطرہ پگھل رہی ہوں
ڈاکٹر نجمہ شاہین کی شاعری کی دوسری خوبی اُس کا شیریں لب و لہجہ ہے۔اُس کی مٹھاس ہے۔خواجہ غلام فریدؒ کی دھرتی کے اندر ویسے بھی بڑی مٹھاس ہوتی ہے ۔نجمہ جب بات کرتی ہے تو اس کے لہجے کی شیرینی ماحول کو رنگین بنا دیتی ہے اور جب شعر کہتی ہے تو کلبلاتے ، تڑپتے، مچلتے اور سسکتے جذبوں کے اوپر شہد کا چھڑکاؤکرتی جاتی ہے۔وہ انسانوں کی دنیا میں انسانوں کے لئے سکھ اور سکون کی خیرات مانگنے نکلی ہے۔۔وہ چاہتی ہے کسی آنکھ میں آنسو نہ ہوں ، کوئی مانگ نہ اُجڑے۔۔کوئی دل نہ ٹوٹے ۔۔نظامِ ہستی میں بلندی پستی ، اونچ نیچ نہ ہو۔
یہ دیس جس میں ہے نفرتوں کا ہی راج ہر سُو
محبتوں کی ہو راجدھانی تو نیند آئے
اور
شاہین دورِ جبر میں جینا محال ہے
کب تک ہمارا ساتھ نبھائے گی اے وفا
نجمہ کی شاعری دلِ زندہ کی شاعری ہے ۔حساس جذبوں سے لدی پندی۔،صحراؤں کی منہ زور ہواؤں نے اس کی پرورش کی ہے اور ریت کے ذروں نے اسے چمکنا سکھایا ہے ۔ میں تو اس خوبصورت شاعرہ سے یہی کہوں گی کہ دل کے لہو میں قلم ڈبو کے نشتر کی طرح چلاتی رہو ۔۔یہی تمہارا سنگھار ہے او ر یہی تمہارا پیار ہے ۔
11؍ فروری 2013ء