سوزِ فراق و ہجر میں رنجور ہو گئے
اپنی فصیلِ درد میں محصور ہوگئے
بے نام منزلوں کی مسافت نہ پو چھئے
ہر گام فاصلوں کے نشاں دور ہو گئے
روح وبدن کے وصل کے لمحے تھے کیا عجیب
ہم لوگ بن پیئے یونہی مخمور ہو گئے
آرائش جمال بے مقصد سی ہو گئی
تم کیا گئے کہ آئینے بے نور ہو گئے
شاہین دھوپ چھاؤں کی مانند ہے حیات
مغموم ہو گئے، کبھی مسرور ہو گئے