عجیب سی رتیں تھیں اور عجب ہی پیرہن ملا


عجیب سی رتیں تھیں اور عجب ہی پیرہن ملا
کہ لوگ پھول مانگتے تھے اور انہیں کفن ملا

گلی گلی میں بس رچی ہوئی ہے خون کی مہک
یہ موسم بہار بھی عجب، تجھے وطن ملا

ہر ایک اپنی ذات کے حصار میں اسیر تھا
کہ خود فریبیوں میں ہی ہر ایک موجزن ملا

میں اک مہک تھی پھول کی، بکھرکے دور تک گئی
یہ اور بات ہے مجھے کہیں نہ پھر چمن ملا

لبوں پہ جو دعائیں تھیں کہاں نہ جانے کھو گئیں
ہر ایک رہ گزار پر ہمیں تو راہزن ملا

میں ذہن ودل کی جنگ سے تھکی ہوئی ہوں بے طرح
کسی کی یاد اوڑھ کر یہ خاک کا بدن ملا

watan

Facebook Comments