مرے قصہ گو ، مرے نامہ بر
مری بات ہے بڑی مختصر
کبھی ہو سکے تو جو داستان ہے ہجر کی
مری نارسائی کے ذکر کی
اسے کر بیاں
کبھی اپنے لفظوں سے کر اسے بھی تُو معتبر
کہ جو آنے والی رتیں ہیں ان کو بھی ہو سکے پھر مری خبر
مری یاد کو کسی ایسے سائے میں چھوڑ دے
جہاں نہ دھوپ کا ہوکبھی گزر
جو نہ آشنا ہو زوال سے
مری داستاں کی حقیقتوں کو کبھی اک ایسا بھی موڑ دے
جو طویل ہو نہ ہی مختصر
کہ وفا کے رستوں پہ جومسافر بھی گامزن ہیں
بس ان کو کرنا مری خبر
کہ وہ جان لیں یہ اداسیاں
مرے ان پپوٹوں پہ بوجھ بنتی ہیں کس طرح
کسی شام ڈھلتے ہی یاد جگنو
کسی بگولے کا روپ بن کر دھمال ڈالیں
تو جسم و جاں کی فصیل کو بھی گرا ہی ڈالیں
نہ یاد کوئی سُلا سکیں تو یہ جاگتے کو جگا ہی ڈالیں
مرے دشت میں کبھی چاند نکلے تو چاہتوں کی ہنسی اڑاکر
مجھے اندھیرا ہی دان کر دے
یہاں پہ پنچھی کبھی جو آئیں تو دکھ بھرا گیت ہی سنائیں
مرے قصہ گو مری آرزو
کہ یہ داستان کچھ ایسے ترتیب دے سکوں
میں جنون کویونہی بیٹھ کر کبھی ایسے تہذیب دے سکوں
کہ وہ عکس ہو مری ذات کا
مری شام کا مری رات کا
مرے قصہ گو مرے نامہ بر
مری بات اگرچہ ہے مختصر
مری داستاں تو طویل ہے
یہ جو میری پلکوں پہ رک گئے ہیں کئی زماں
ہے قلم مرا جو ابھی تلک بڑا خونچکاں
ہیں جو دل میں اب بھی شکایتیں
ہیں جو لب پہ اتنی حکایتیں
یہ جو چاہتیں، ہیں جو حسرتیں
انہیں ایک اچھا سا نام دے
مرے قصہ گو،مرے نامہ بر
مری داستاں جو طویل ہے
یہ صداقتوں کی دلیل ہے
یہی زندگی کی سبیل