نظم ۔۔ میں کس سے اپنا حساب مانگوں


میں دشتِ وحشت کی تنہا لڑکی
کسے پکاروں ، کسے صدا دوں
میں کس کے دامن سے لگ کے روؤں
میں کس کو اپنے یہ اشک سونپوں
بکھرے خوابوں کی کانچ لیکر
سلگتی خواہشوں کی آنچ لیکر
جو بے سمت سفر سراب کر رہی ہوں
میں اُس کی تھکن کس کو بتاؤں
روح کے زخم کس کو دکھاؤں
دل کے دریچے میں پنہاں وہ خواب سارے
جو موتی بن کر پلکوں پہ میری لرز رہے ہیں
وہ مچلتے آنسو کہاں گراؤں
لرزتی خواہشیں کہاں سلاؤں
میں اپنی تھکن کسے دکھاؤں
اپنی رائیگاں خواہشوں اور چاہتوں کا
کس سے حساب مانگوں
تمام رائیگانیاں سمیٹے عمر رواں جو ڈھل رہی ہے
اُسکے اُجاڑ وہ خال وخد اور خواب مانگوں
فنا کے لمحوں کی وہ کہانی
جو زخموں کی صورت لگی ہے رِسنے
اسکا مرہم گلاب مانگوں
صحیفہء دل پہ جو نقش ہوئے ہیں
اُن محبتوں کا نصاب مانگوں
میں وہ مسیحا کہاں سے لاؤں
جو میرے زخموں کو اندمال کر دے
محبتوں کے رفاقتوں کے
حسین احساس کو لازوال کر دے
وقت جو فرقت بچھا رہا ہے
دکھ شبِ ہجراں دکھا رہا ہے
اُسے محبتوں سے سجا حسین لمحہ
قرب ووصال کر دے
مجھ گرد سفر کو بنا کے منزل
مجھ کو بے مثال کر دے
با کمال کر دے
میں وہ جمال کہاں سے لاؤں
میں وہ کمال کہاں سے لاؤں
میں دشتِ وحشت کی تنہا لڑکی

main kis sy apna hisab mangun

main kis sy apna hisab mangun


Facebook Comments