ref=”https://www.drnajmashaheen.com۔/?
سوچ کا سفر
سفر تو اتنا سا تھا کہ جو پھول سے بچھڑی خوشبو نے ایک زمانے سے دوسرے زمانے تک کرنا تھا۔ ایک فرق روپ کا روح سے اور ایک خیال مکاں سے لامکاں تک کا۔
ہوا جو سب کے وجود کیلئے سانس ہے، آسودگی ہے زندگی ہے مگرپھول سے خوشبو کی جدائی کا سبب بھی یہی ھے، خوشبو جو پھول سے بچھڑی تو اسی ہوا کے سنگ دور تک اڑتی اپنے وجود سے بے خبر، اپنے نشان اپنی منزل سے دور ایسے مقام تک جاپہنچی جہاں اسے اپنی آنکھیں بند رکھنی تھیں کیونکہ اگر وہ آنکھیں کھولتی تو زمانے کی تمام بدصورتیاں اس کے سامنے آتیں جن کو دیکھنے کی اُس میں ہمت نہیں تھی۔ وہ بد صورتیاں چاہے شب کے اندھیروں میں پلتیں یا دن کے اجالوں میں سخت کڑکتی، جلتی دھوپ میں آنکھوں کو چند ھیاتیں سو وہ اس مقام پر ٹھہر گئی جہاں ایک شام اس کے تمام دکھ سکھ اپنی گھٹڑی میں لپیٹے اس کیلئے رکی ہوئی تھی جہاں اس کی منزل، اس کا نشاں، اس کا وجود ٹھہرا تھا۔ ایک ایسی شام جو بے عمیق گہرائیوں میں ڈھل کے بھی رات نہ بن سکی کہ وہ رات بنتی تو اس کا انت سحر ہوتی۔ مگر سحر بچھڑنے والوں کے نصیب میں کہاں۔
پھر شاید وہ اسی شام میں ٹھہرے ٹھہرے سحر کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی۔ اس نے نظر بھرکر بیچارگی سے آسماں کو دیکھا اور چاند کے گرد جھلملاتے تاروں کے اور جھانکا اور سوچ میں پڑ گئی کہ شاید ان تاروں میں اس کے لیے بھی تھوڑی سی ضیاء ہو جو اس لامتناہی اندھیرے سفر کو ہلکی سی روشنی دے دے یہ کٹھن سفر کچھ آسان کردے مگر جب سوچ نے سفر کیا تو اس پر یہ منکشف ہوا کہ خوشبو کی منزل پھول ہے کوئی چاند تارہ نہیں اور تارے تو ویسے بھی مانگ کی ضیاء پر جیتے ہیں وہ بھلاکسی کو کیا روشنی دیں گے کہ جن کا اپنا مقدر ہی عمیق گہرائیوں اور اندھیروں میں ٹوٹ کے گرنا ہے۔
اور سوچ کا یہ سفر جب اپنے مرکز کی طرف اپنے دائرے کے گرد پلٹا تو لفظوں کی صورت صفحہ قرطاس پر ابھرا۔ وہ لفظ تاروں کی ضیا کی طرح مانگے کے نہیں تھے ، وہ صدیوں سے رائیگانی میں گذرے۔ ان تمام لمحوں کی ودیعت تھے جو آنکھوں سے بینائی لے لیتے ہیں۔اور ایک ایک لفظ قطرہ قطرہ خونِ دل سے سینچا جاتا ہیں۔
ان اشکوں کا تو دکر ہی کیا ،تجھے عشق لہو سے بھی لکھا۔۔
کبھی پڑھ تو سہی ان نوحوں کو، تجھے علم تو ہو تحریر ہے کیا،،،
اور وہ سب لمحے ہی رائیگاں ہوتے ہیں جو روح اپنے ہمزاد کی تلاش میں گذارتی ہے جسے وہ عشق کہتی ہے اور عشق کی مثال توبس ایسے ہی ہے کہ جسے ایک بیوہ ماں اپنا جگر گوشہ کھودے اور ساری عمر ایک ویران آنگن میں بیٹھے اس آس،اس امید پر روتے روتے گزار دے کہ اس کی کل کائنات ایک دن اس کے پاس اس آنگن میں ضرور پہنچے گی۔ مگر جب سارا سفر طے ہوجائے اور عمر کے سارے برس لکیروں کی صورت چہرے پر تحریر ہو جائیں اور زندگی آخری ہچکیوں تک آپہنچے تب اس پر انکشاف ہو کہ جس کا ئنات کو اس نے جہاں کھویا تھا وہ تو وہیں منوں مٹی تلے دفن ہے اور اس کی امید بھی انہی لمحوں پہ اخیر ہوکہ عمر تو ساری بیت گئی ایک رائیگانی میں روتے، ایک لاحاصل کو تلاشتے۔
وقت بیت جاتا ہے، عمریں گذر جاتی ہیں مگر حقیقتیں وقت کی دھند میں دھندلا کے بھی ختم نہیں ہوتیں۔ زندگی کے جھمیلوں سے تھک ہار کے شام کو اپنے اپنے گھروندوں میں لوٹنے والوں کو کوئی پل ایسا ضرور ملتا ہے جب وہ اپنی ذات کا سفر کرتے ہیں۔ اپنی سوچ کا سفر ، اور سفر تو ساراسوچ کا ہی ہے۔ یہ سوچ ہی تو ہے جو پیٹ کے بل لڑکھراتی عشق کا روپ دھارے گردش زمانہ کی تمام تلخیاں سمیٹے، تمام کٹھن اور اذیت سے بھرپور راہوں کا سفر طے کرتے کرتے اپنے قبلہ و کعبہ تک پہنچتی ہے اور اپنے خلوص کا تحفہ اپنے معشوق کے منتظر ہونے کی صورت میں پاتی ہے اور یہ بھی سوچ ہی کا سفر ہے جو حطیم اور باب قلزم میں مانگی جانے والی دعاؤں کے نتیجے میں بہنے والے آنسو صرف پانی کے چند قطروں میں ڈھل کے اس پاک مٹی میں جب مل جاتے ہیں تو وقعتِ زمانہ انہیں بے وقعت آنسؤوں کا نام دے دیتا ہے۔ محبت سے عشق کا سفر بھی سوچ ہے اور سوچ گردشِ زمانہ میں کہاں جاکے خود کو ڈھونڈے، کہاں جاکے خود کو تلاشے۔ زمانے نے اس کی اب تقسیم کردی ہے۔
اپنے لامتناہی دائروں میں گردش کرتی اپنے خوابوں کو روح کی پاکیزگی میں جا کے ڈھونڈے یا زمانے کی طرح نظر آنے والے کسی مجسم روپ کو ہی اپنا محور بنائے۔ بہرحال خیالات کا دیوتا تو بنانا ہوتا ہے کہ جینے کیلئے خیال ضروری ہے۔ یہ خیالات کا دیوتا بھی کس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ اپنے پیچھے اپنے پوجنے والوں کو ساری زندگی یوں لگائے رکھتا ہے کہ جیسے اس کی اجازت کے بغیر ایک سانس لینا بھی گناہ ہو اور کتنی عجیب بات ہے کہ جب پجاری اس کے عادی ہوکر اسے پوجتے پوجتے مٹی سیدیوتا اور دیوتا سے معبد بنالیتے ہیں تو ایکدم سے سارا منظر ہی تبدیل ہوجاتا ہے۔
آنکھ کیاجھپکتی ہے کہ معبد گم ، دیوتا گم، مٹی کا پتلا گم، خیالات گم اور ہاتھ خالی خالی ، اور تنہائی کے مکاں میں ویران، حیران و پریشان گم سم خالی خالی آنکھیں
اور خالی خالی آنکھیں۔ دنیا کے کارواں میں ہوا کی سختیاں سہتی ’’پھول سے بچھٹری خوشبو‘‘کا منظر دیکھ رہی ہیں۔ جو کبھی کرب کی اذیت سے اپنی آنکھیں بند رکھتی ہے۔ اور کبھی ایک ٹھہری ہوئی شام کے سائے میں جا کر پناہ ڈھونڈتی ہے اور کبھی بے بسی کے عالم میں آسماں کو تکتی ہے ۔ جہاں فلک پر دور بہت دور ایک تارہ دکھائی دیتا ہے وہ نہیں جانتی کہ وہ تارہ محبت کا استعارہ ہے یا دکھ کا کوئی دھارہ دریا کا کوئی ٹوٹا کنارہ ہے ۔ یا اس کی قسمت کا کوئی ستارہ کہ جس نے گردش ماہ وسال میں ٹوٹ کر بکھرنا ہے اور ریزہ ریزہ ہو کر واپسی اس مٹی کا حصہ بننا ہے جہاں تہہ بہ تہہ مٹی برابر کر کے مالی نے پھر سے پھول لگانا ہے۔جو اس بکھری بچھٹری خوشبو کا مقدر ہو! مگر کیا کہیئے کہ ان آنکھوں کو نہ کوئی منظر ملتاہے نہ ہی ماہ و سال کے زیروبم میں کوئی منتظر ،نہ انتظار ، اور نہ ہی آس و امید کا کوئی جگنو۔
، بس ایک سوال۔
صرف ایک سوال۔
چھوڑ یہ بات ملے زخم کہاں سے تجھ کو۔
زندگی اتنا بتا ،کتنا سفر باقی ہے۔۔
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ
۱۶جنوری ۲۰۱۶