پیار کی کب ہو سکیں شنوائیاں
راہ میں تھیں منتظر رسوائیاں
دے گئیں مجھ کو بہت تنہائیاں
اس دلِ نادان کی دانائیاں
کل خوشی کی چاہ میں مچلا تھا دل
آج ہیں بس درد کی تنہائیاں
طالب و مطلوب جب موجود ہیں
کھو گئیں کیوں عشق کی سچائیاں
دل بھی پتھر آنکھ بھی پتھرا گئی
کھو گئیں دنیا کی سب بینائیاں
دب گئی ان کی صدا چیخوں میں جب
مقتلوں میں رو پڑیں شہنائیاں
ہجر نے چھینے ہیں رنگ و روپ سب
کھو گئیں جتنی بھی تھیں رعنائیاں
دل یہ شاہیں اس لئے بے چین ہے
یاد ہیں اُس کی کرم فرمائیاں