دسمبر لوٹ جاتا ہے
دسمبر لوٹ جاتا ہے اُسے کہنا کہ حیرانی مجھے حیرت سے تکتی ہے مرے جیون پہ خود بھی زندگی روتی ہے ہنستی ہے نظر جب بھی ہتھیلی کی لکیروں سے الجھتی ہے ان آنکھوں سے جھڑی ساون کی پھر کچھ ایسی لگتی ہے مرا
تازہ ترین
دسمبر لوٹ جاتا ہے اُسے کہنا کہ حیرانی مجھے حیرت سے تکتی ہے مرے جیون پہ خود بھی زندگی روتی ہے ہنستی ہے نظر جب بھی ہتھیلی کی لکیروں سے الجھتی ہے ان آنکھوں سے جھڑی ساون کی پھر کچھ ایسی لگتی ہے مرا
ہر ایک خواب میں حرف و بیاں میں رہتا ہے وہ ایک شخص جو دل کے مکاں میں رہتا ہے نہ دن نکلتا ہے اُس کا،نہ شام ہوتی ہے اب اِس طرح سے بھی کوئی جہاں میں رہتا ہے یقین ہے کہ وہ مجھ پر یقین رکھتا ہے گمان ہے
مجھے جانا ہے جاناں کی طرف اے دل میرے، ناشاد مرے ہمزاد مرے، برباد مرے اک عمر سے اس زندان میں ہوں پر کھول مرے آزاد تو کر مرے پیروں میں زنجیرِ وفا اسے توڑ ذرا، مجھے جوڑ ذرا مجھے جینے کی تہذیب تو دے
اجنبی شہر کی اجنبی شام میں زندگی ڈھل گئی ملگجی شام میں شام آنکھوں میں اتری اسی شام کو زندگی سے گئی زندگی شام میں درد کی لہر میں زندگی بہہ گئی عمر یوں کٹ گئی ہجر کی شام میں عشق
شام کی دہلیز پر لیں درد نے انگڑائیاں جاگ اٹھے ہیں غم سبھی اور رو پڑیں تنہائیاں راستوں پر خاک ہے ، پھولوں سے خوشبو کھو گئی دن کا اب امکاں نہیں ہے کھو گئیں رعنائیاں جب وفا گھائل ہوئی ، دنیا
پھر مصر کے بازار میں نیلام ہوا کیوں؟ اے عشق بتا تیرا یہ انجام ہوا کیوں؟ ہم باعثِ راحت جسے سمجھے تھے وہ لمحہ اب اپنے لئے باعثِ آلام ہوا کیوں؟ اے عشق فلک پر تجھے لکھا جو خدا نے پھر تیرا مقدر بھلا
کس کی آس امید پہ اے دل! آنکھیں روز بچھاتے ہیں دن بھر اس کی راہ تکتے ہیں، شب بھر دئیے جلاتے ہیں خون کے آنسو روتے ہیں، فرقت کی لمبی راتوں میں شب بھر تارے گنتے ہیں، ہم چاند سے آنکھ چراتے ہیں صدیوں
سلام دکھوں کی تفصیل لکھنے بیٹھوں تو اشک اپنے تمام لکھوں لہو میں ڈوبیں جو حرف سارے، امام تیرا سلام لکھوں وہ جس نے سجدے میں سر کٹا کے ہمیں نوازا بلندیوں سے وفا کے سجدوں کے شاہ کو ہی میں آج شاہ و
اس سے بڑھ کر مری وفا کا کوئی نہیں گواہ غزلیں ، نظمیں ، سجدے،آنسو اور اِک شب سیاہ ہر اِک گام پہ ہوتا ہے کیوں ارمانوں کا خون صرف سلامت رہ جاتے ہیں کیوں منصب اور جاہ اسی لیے تو روشن مصرعے روشنیاں
دوستی کے لہجے میں دشمنی نے ماراہے دکھ تو یہ ہے ہم کو بس اک خوشی نے ماراہے تیرگی کا ہم کریں اب گلہ بھلا کیسے ہم کو چاند راتوں میں چاندنی نے مارا ہے دردِ نا رسائی اب ہم کو کیسے مارے گا الوداعی