بس چکی ہے جو دل و جاں میں محبت تیری
بھول سکتی ہوں بھلا کیسے وہ چاہت تیری
تیری یادوں سی ہے وابستہ مرے دل کا سکون
اک گھنی چھاؤں کی صورت تھی رفاقت تیری
تیری صورت کے مشا بہ نہیں صورت کوئی
میں نے ہر چہرے میں ڈھونڈی ہے شباہت تیری
تازہ تازہ ہے ابھی لمس ترے ہاتھوں کا
میرے ہاتھوں کی حنا بھی ہے عنایت تیری
تجھ کو کھو کر بھی میں خوش ہوں یہ ہے کیسے ممکن
ساری دنیا کا اثاثہ بھی نہیں قیمت تیری
ہم بھی دو چار گھڑی ساتھ رہے ہیں تیرے
ہم کو معلوم ہے شاہین طبیعت تیری