وہ ایک شخص روح کو عجب زوال دے گیا
پھول سے بچھڑی خوشبو ۔۔ پہلا شعری مجموعہ ہنسی نہ دے سکا مگر مجھے ملال دے گیا وہ ایک شخص روح کو عجب زوال دے گیا وفا کو پھر لغات میں فریب ہی لکھا گیا وہ چاہتوں کو دیکھئے عجب مثال دے گیا پھر آئینے کے
تازہ ترین
پھول سے بچھڑی خوشبو ۔۔ پہلا شعری مجموعہ ہنسی نہ دے سکا مگر مجھے ملال دے گیا وہ ایک شخص روح کو عجب زوال دے گیا وفا کو پھر لغات میں فریب ہی لکھا گیا وہ چاہتوں کو دیکھئے عجب مثال دے گیا پھر آئینے کے
یہ راستے سب جداجداہیں،یہ منزلیں سب جداجداہیں یہ آئینے سب الگ الگ ہیں،یہ صورتیں سب جداجداہیں کسی کے لفظوں کا اعتبار اب کریں تو کیسے کریں بھلاہم کہ لفظ ہیں سب کے ایک جیسے،ضرورتیں سب جداجداہیں
چاہتوں کے رستے میں گو شجرہی ملتے ہیں ہاں مگر یہ دکھ ہے سب بے ثمرہی ملتے ہیں کس سے آج پوچھیں ہم کس نگروہ رہتاہے؟ ہم کوسب مسافر تو بے خبر ہی ملتے ہیں اب خوشی کے لمحوں پراعتبارکیسے ہو؟ جب دکھوں کے
آحساب کر کسی روز اب ،کسی گزرے ماہ کاسال کا شب وروز کے اسی ہجرکا،کسی خواب خواب وصال کا وہ جوہمسفر تھا بچھڑ گیا،وہ غبار رہ میں کدھرگیا؟ مگراک ادھوراجواب تھا،مرے ان کہے سے سوال کا نہ ہے جستجو کسی
اب برسوں بعد ملے ہو تو کچھ اپنا حال احوال کہو کہو کیسے ہجر کی رات کٹی اور کتنے ملے ہیں ملال کہو؟ کیا ہجر کا دکھ زندہ ہے ابھی کسی آتے جاتے موسم میں؟ یا ماضی کا قصہ ٹھہرا ہے آج وہ عہدِ وصال کہو؟
مجھ کو رہے گی یاد ملاقات آخری ہونٹوں پہ رہ گئی تھی کوئی بات آخری آنکھوں کے دشت میں تھے نگینے سجے ہوئے چاہت کی جس طرح سے ہو سوغات آخری ٹھہرا ہوا سا د ن تھا اور گہری اداس
کیسے عجیب دکھ تھے،دل میں چھپا کے لائے گردِ سفرتھی رہ میں ،بس ہم اٹھا کے لائے ہر رہ گزرپہ اُس کو رکھنا تھا یاد سو ہم انجان راستوں میں، خود کو بھلا کے آئے جیون کی دھوپ میں یوں تنہا سفر تھا اپنا سکھ
خوش گمانی کوسلام اس بدگمانی کوسلام کررہی ہوں پیار کی ہر مہربانی کوسلام وحشتوں کے سائے ہی اپنامقدرہوگئے وہ جومرجھانے لگی ہے اُس جوانی کوسلام ہم مسافرہیں جنوں کے راستے پرگامزن بے سروسامان ہیں اپنی
ہے گردشوں میں دیکھئے مری سحر ابھی غموں کی رات کیسے ہو گی مختصر ابھی ؟ یقیں تو ہے وہ ایک دن ضرور لوٹ آئے گا مگر کٹھن وفاؤں کی ہے رہگزر ابھی گو باغباں نے کوششیں تمام کیں مگر وفا کی شاخ پر نہ آئے گا
وہ ہلالِ عید کو دیکھ کر بھی اداس ہے اسے یاد ہے کسی عید پر کہیں چاہتوں کی نوید پر کوئی کہہ گیا تھا اُسے کبھی کہ میں چاند ہوں تری عید کا مرے بن منانا نہ عید تُو کہ میں آؤں گاترے پاس جب کسی ایک وصل