کیسے عجیب دکھ تھے،دل میں چھپا کے لائے
گردِ سفرتھی رہ میں ،بس ہم اٹھا کے لائے
ہر رہ گزرپہ اُس کو رکھنا تھا یاد سو ہم
انجان راستوں میں، خود کو بھلا کے آئے
جیون کی دھوپ میں یوں تنہا سفر تھا اپنا
سکھ سب کو بانٹ ڈالے، بس دکھ اٹھا کے لائے
اپنے تھے یا پرائے لہجوں میں بس چبھن تھی
مسکان اپنے لب پر پھر بھی سجا کے لائے
پڑھتا نہیں ہے کو ئی پھر بھی لکھا ہے ہم نے
سنتا نہیں ہے کو ئی لیکن سنا کے آئے
اس واسطے تو شا ہیں مری روح جل رہی ہے
جیون کی آگ میں ہم خود کو جلا کے آئے
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ