نظم ۔۔ اُسے عید مبارک کہتی ہوں
آج بھی برسوں بعد مرے کانوں میں صدا تیری آئے مَیں چاند ہوں جاناں ،چاندہوں مَیں سُن چاند ہوں تیری عید کامَیں پیغام ہوں ایک نوید کامَیں رنگوں سے سجی ،خوشبومیں بسی ہردید کا اک انعام ہوں مَیں پیغام
تازہ ترین
آج بھی برسوں بعد مرے کانوں میں صدا تیری آئے مَیں چاند ہوں جاناں ،چاندہوں مَیں سُن چاند ہوں تیری عید کامَیں پیغام ہوں ایک نوید کامَیں رنگوں سے سجی ،خوشبومیں بسی ہردید کا اک انعام ہوں مَیں پیغام
اللہ ہم شرمندہ ہیں تیرے در پہ آج یہ گریہ کناں ہے زندگی میرے مولا اب تو بس محو فغاں ہے زندگی زمین رو رہی ہے اپنی بے بسی پہ آج کل کہُ دیر اور حرم میں بھی اب فغاں ہے زندگی اک ردائے خوف میں لپٹے ھوئے
درد کابوجھ ترے شہر سے لائے ہوئے لوگ اب کہاں جائیں یہ زخموں کوسجائے ہوئے لوگ ہیں اس آسیب کے ہر روپ سے انجان ابھی یہ جو ہیں عشق حقیقت کوبھلائے ہوئے لوگ کون کہتا ہے کہ زندہ ہیں بظاہر زندہ روح کا
آنکھوں میں پھر سے خواب ہوں،دلدار معذرت سرکار معذرت ، مرے سرکار ، معذرت برسوں سے جن کی یاد میں برسی ہے میری آنکھ سوچوں میں ہوں وہی درو دیوار ، معذرت جذبات آ گئے ہیں غموں کی صلیب پر تجدید عشق
مرے کانوں میں چیخیں ہیں مرے معصوم بچوں کی مری آنکھوں کے تاروں کی کہ جن کے کھیلنے کے دن تھے لیکن ظالموں نے ان سے کیسا کھیل کھیلاتھا مرے بچوں سے اس دن موت کھیلی تھی مری
زمانے کو خدا کیا نہ درد کو دوا کیا نہ حرف کو صدا کیا بس اپ نے تو ہم کو ہجر سے ہی آشنا کیا لگا کے اپنے دام آپ خود سے خود کو ہی جدا کیا جو لوگ مہربان نہ تھے آپ ان پہ مہرباں
کہاں پہ رہنا تھا مجھ کو،مگر کہاں پہ رہی میرا جہان ہی کب ہے یہ،میں جہاں پہ رہی بجھے تھے درد کے جو بھی دئیے تھے آنکھوں میں جہاں پہ درد کا ڈیرہ تھا ،میں وہاں پہ رہی جو شور مجھ میں بپا تھا وہ
تخت نشین تھی عشق کی پھر بھی، دل کی بازی ہاری سائیں تیرا مذہب دنیا داری، میں الفت کی ماری سائیں مثلِ خوشبو مہکی تھی مَیں، اس کے وصل کی چھاؤں میں کل سر پر تپتی دھوپ کھڑی اب ، ساتھ میں ہجر کی باری
چاہتوں کے تخت پر ہم کو بٹھایا ،شکریہ اور بٹھا کر پھر نظر سے بھی گرایا ،شکریہ تھا بڑا ہی شوق جس کو قربتوں کا کل تلک راستہ بھی ہجر کا اس نے دکھایا، شکریہ ڈھونڈتا تھا عکس اپنا میرے خال و