نینوں میں نیر پروتی ہیں ، یہ پائل ،چوڑیاں اور مہندی
نینوں میں نیر پروتی ہیں ، یہ پائل ،چوڑیاں اور مہندی جیون کے ساز پہ روتی ہیں ، یہ پائل ،چوڑیاں اور مہندی اک یاد پڑی ہے آنگن میں، اک شام رکھی ہے جیون میں اک درد کا بوجھ بھی ڈھوتی ہیں ، یہ
تازہ ترین
نینوں میں نیر پروتی ہیں ، یہ پائل ،چوڑیاں اور مہندی جیون کے ساز پہ روتی ہیں ، یہ پائل ،چوڑیاں اور مہندی اک یاد پڑی ہے آنگن میں، اک شام رکھی ہے جیون میں اک درد کا بوجھ بھی ڈھوتی ہیں ، یہ
یہ عشق عجب لمحہ ء توقیر ہے جاناں خود میرا خدا اس کی ہی تفسیر ہے جاناں جو نام ہتھیلی کی لکیروں میں نہیں تھا کیوں آج تلک دل پہ وہ تحریر ہے جاناں اس خواب کی تعبیر تو ممکن ہی
تو نہیں تو جانِ جاں پھر یہ جہاں کچھ بھی نہیں جز ترے رنگینیء کون و مکاں کچھ بھی نہیں منتظر کوئی نہیں اب جل بجھے ہیں راستے مجھ کو مت بہلاؤ تم اب تو وہاں کچھ بھی نہیں اب نہیں وہ منتظر
پھر کارگاہِ عشق میں لایاگیامجھے پھر زندگی کاخواب دکھایاگیامجھے اک درد لادوامر ے حصے میں ڈال کر سپنوں کے دیس سے بھی جگایاگیامجھے حیرت زدہ ہے آنکھ اورحیراں ہے زندگی آئینہ خانے میں جو
عید مہندی کا، خوشیوں کا رنگوں کا ، خوشبو کا اور کانچ کی چوڑیوں کی کھنک میں بسی آرزوؤ ں کا اک نام ہے عید انعام ہے عید امید ہے عید تجدید ہے عید جیسے کوئی روشنی کی کرن ایک وعدے ، کہانی ، فسانے کی یا
یہ جو عشق مسلک کے لوگ ہیں،انہیں رمز سارے سکھا پیا! یہ جنونِ عشق کی داستاں، انھیں حرف حرف سناپیا! مرے چارہ گر،میں ہوں در بدر،میں تو تھک گئی،ہے عجب سفر مری بے نشاں سی ہیں منزلیں،مجھے راستہ بھی دکھا
مل رہی ہیں چار سو کیوں وحشتیں بہکی ہوئی کس گلی میں رہ گئیں وہ قربتیں نکھری ہوئی اب مہک تیری مری ہر پور میں یوں رچ گئی منتظر ہیں آنکھ میں کچھ حیرتیں دہکی ہوئی ہجر کی وحشت نے دل کو کر دیا رنجور اب
عشق کو آنکھ میں جلتے دیکھا پھول کو آگ میں کھِلتے دیکھا عشق کے راز نہ پو چھو صاحب عشق کو دار پہ چڑھتے دیکھا عشق ہے واجب ،اس کو ہم نے جسم اور جاں میں اترتے دیکھا عشق کے دام بھی لگ جاتے ہیں مصر میں
ہوں عشق میں مالا مال پیا ہر سو بس تری دھمال پیا ہو اک پل صرف وصال پیا میں ہجر میں ترے نڈھال پیا ترے خیال میں گزرے سال پیا یہ عشق نظر کا کمال پیا جس نگری عشق کا راج ہوا کیاِ ِ ’’میں‘‘ ’’تو‘‘ کا
” order_by=”sortorder” order_direction=”ASC” returns=”included” maximum_entity_count=”500″]