تو نہیں تو جانِ جاں پھر یہ جہاں کچھ بھی نہیں
جز ترے رنگینیء کون و مکاں کچھ بھی نہیں
منتظر کوئی نہیں اب جل بجھے ہیں راستے
مجھ کو مت بہلاؤ تم اب تو وہاں کچھ بھی نہیں
اب نہیں وہ منتظر مجھ کو یہی تو ہے یقیں
ہے یقیں کا ہی یقیں ، وہم و گماں کچھ بھی نہیں
کس طرف ہیں خال و خد اور کس طرف ہیں خواب سب
ہر طرف اب ہے دھواں مجھ پر عیاں کچھ بھی نہیں
ہم بھٹکتے پھر رہے ہیں رہنما کے ساتھ ہی
در بدر ہیں سب اگر تو کارواں کچھ بھی نہیں
جس میں شاہیں ذکر میرے خال و خد کا ہی نہیں
رد ہے ساری داستاں وہ داستاں کچھ بھی نہیں