انٹر ویو ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ
ڈاکٹر نجمہ شا ہین کھو سہ (انٹرویو) ابتدائی تعلیم کیلئے پرائمری سکول جندانی والا میں داخلہ لیا اور سوم کلاس میں تھی کہ اپنے گاؤں سے نانی کے گھر ڈیرہ غازیخان شہر میں منتقل ہوگئی اور دو سال تک میں
تازہ ترین
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کا نام اردو شاعری کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔5دسمبر کو ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئیں ۔ابتدائی تعلیم ڈیرہ غازی خان سے حاصل کی جس کے بعد نشتر میڈیکل کالج ملتان میں داخلہ لیا۔1996ء میں ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیااور ہاؤس جاب کے دوران ہی شاعری کا آغاز کیا ۔ ڈاکٹر بننے کے بعد نجمہ شاہین کھوسہ نے انسانیت کی خدمت کے لئے اپنے آبائی شہر کا انتخاب کیا ۔ ابتدا میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال ڈیرہ غازی خان میں میڈیکل آفیسر کے طور پرکام شروع کیا اور اپنا کلینک قائم کیا جو اب ہسپتال کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔جان سرجیکل ہسپتال کا شمار اب ڈیرہ غازی خان کے معتبر طبی اداروں میں ہوتا ہے۔دور دراز علاقوں سے خواتین کی بڑی تعداد یہاں آتی ہے اور شفا پاتی ہے۔ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ نے ڈیرہ غازی خان کے نواحی علاقوں میں بھی بھر پور طبی خدمات سر انجام کیں۔ اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ نے شاعری کے ساتھ وابستگی برقرار رکھی ۔2007ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ’’پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘کے نام سے شائع ہوا تو اپنے منفرد اسلوب اور چونکا دینے والے نام کی وجہ سے اس نے ادبی حلقوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ اسی مجموعے کی اشاعت سے ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ہوا ۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’میں آنکھیں بند رکھتی ہوں ‘‘2010ء میں شائع ہوا ۔ پہلے شعری مجموعے کی طرح اسے بھی بھر پورپذیرائی ملی اور یہ مجموعہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ان کی پہچان بنا۔ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ غزل اور نظم دونوں میں یکساں مہارت رکھتی ہیں ۔انہوں نے سرائیکی علاقے کی عورت کے دکھوں کو قریب سے دیکھا اور انہی دکھوں کو اپنے شعروں کا موضوع بنایا ۔ آج وہ اس خطے کی عورتوں کی آواز بن چکی ہیں ۔ان کی شاعری میں محبت کی کسک بھی موجود ہے اور سماجی رویوں اور معاشرتی تضادات کا اظہار بھی۔ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں خوشبو رائٹرز ایوارڈ، بے نظیر بھٹو ایوارڈ اور درشن میگزین ایوارڈ قابلِ ذکر ہیں ۔ ’’پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘ ’’اور میں آنکھیں بند رکھتی ہوں‘‘ ’’ اور شام ٹھہر گئی‘‘ کے بعد ’’پھول، خوشبو اور تارا ‘‘جیسی کتابوں کے مطالعے کے بعد شاعرہ کی جو شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ وہ بات کر کے پھولوں کی خوشبو کی طرح لوگوں کے ذہنوں میں اتر جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔وہ سخت سے سخت بات کہنے اور منوانے کے لئے بھی محبت کا دامن نہیں چھوڑتیں ۱۔۔ان کا پہلا شعری مجموعہ’’پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘کے نام سے2007 ء میں شائع ہوا ۲۔۔دوسرا شعری مجموعہ ’’میں آنکھیں بند رکھتی ہوں ‘‘ ‘2010ء ‘ء ۳۔۔اور شام ٹہر گٰی،،،،‘شاعری ۴،،،پھول،خوشبو اور تارہ،،،شاعری ۵۔۔اور ایک ناول گرد سفر زیرطبع ہے،،
ڈاکٹر نجمہ شا ہین کھو سہ (انٹرویو) ابتدائی تعلیم کیلئے پرائمری سکول جندانی والا میں داخلہ لیا اور سوم کلاس میں تھی کہ اپنے گاؤں سے نانی کے گھر ڈیرہ غازیخان شہر میں منتقل ہوگئی اور دو سال تک میں
آج بھی برسوں بعد مرے کانوں میں صدا تیری آئے مَیں چاند ہوں جاناں ،چاندہوں مَیں سُن چاند ہوں تیری عید کامَیں پیغام ہوں ایک نوید کامَیں رنگوں سے سجی ،خوشبومیں بسی ہردید کا اک انعام ہوں مَیں پیغام
اللہ ہم شرمندہ ہیں تیرے در پہ آج یہ گریہ کناں ہے زندگی میرے مولا اب تو بس محو فغاں ہے زندگی زمین رو رہی ہے اپنی بے بسی پہ آج کل کہُ دیر اور حرم میں بھی اب فغاں ہے زندگی اک ردائے خوف میں لپٹے ھوئے
درد کابوجھ ترے شہر سے لائے ہوئے لوگ اب کہاں جائیں یہ زخموں کوسجائے ہوئے لوگ ہیں اس آسیب کے ہر روپ سے انجان ابھی یہ جو ہیں عشق حقیقت کوبھلائے ہوئے لوگ کون کہتا ہے کہ زندہ ہیں بظاہر زندہ روح کا
دسمبر لوٹ جاتا ہے اُسے کہنا کہ حیرانی مجھے حیرت سے تکتی ہے مرے جیون پہ خود بھی زندگی روتی ہے ہنستی ہے نظر جب بھی ہتھیلی کی لکیروں سے الجھتی ہے ان آنکھوں سے جھڑی ساون کی پھر کچھ ایسی لگتی ہے مرا
ہر ایک خواب میں حرف و بیاں میں رہتا ہے وہ ایک شخص جو دل کے مکاں میں رہتا ہے نہ دن نکلتا ہے اُس کا،نہ شام ہوتی ہے اب اِس طرح سے بھی کوئی جہاں میں رہتا ہے یقین ہے کہ وہ مجھ پر یقین رکھتا ہے گمان ہے