کیسے گزرے ہیں یہ حالات ، نہ پوچھو مَیّا
کیسے گزرے ہیں یہ حالات ، نہ پوچھو مَیّا مجھ سے آنکھوں کی یہ برسات ، نہ پوچھو مَیّا چاند کل جس کی پناہوں کو ترستا تھا اُسے ٹُوٹے تارے سے ہوئی مات ، نہ پوچھو مَیّا اک زمیں زاد کے آنچل میں ستارے
تازہ ترین
کیسے گزرے ہیں یہ حالات ، نہ پوچھو مَیّا مجھ سے آنکھوں کی یہ برسات ، نہ پوچھو مَیّا چاند کل جس کی پناہوں کو ترستا تھا اُسے ٹُوٹے تارے سے ہوئی مات ، نہ پوچھو مَیّا اک زمیں زاد کے آنچل میں ستارے
مرے قصہ گو ، مرے نامہ بر مری بات ہے بڑی مختصر کبھی ہو سکے تو جو داستان ہے ہجر کی مری نارسائی کے ذکر کی اسے کر بیاں کبھی اپنے لفظوں سے کر اسے بھی تُو معتبر کہ جو آنے والی رتیں ہیں ان کو بھی ہو سکے
جب مرا ہر ایک دکھ میراہنر ہو جائے گا زندگی کا یہ سفر آسان تر ہو جائے گا دل میں اک موہوم سا جذبہ کہیں جاگا تھا کل جانتی کب تھی یہ اک دن اس قدر ہو جائے گا کیا خبر تھی ریگزاروں میں ہی گزرے گی حیات
سکھی آج میں تیرے واسطے پھر اک نئی کہانی لائی ہوں اک درد نیا سا ہے اس میں گو بات پرانی لائی ہوں سُن سکھی کہانی سُن میری اک بار پرانی سُن میری اک دن کے اُجالے کا قصہ اک بختوں والے کا قصہ اک
یہاں پرصبح توہوگی یہاں سورج تونکلے گا یہ ممکن ہے کہ ان روشن دنوں کابھی نہ کوئی منتظرہوتب نہ امیدِسحرہواورنہ جیون کی طلب ہوتب جواک اندھے سے اوربنجرسے رستے پرمسافرہے وہ جوصدیوں سے تنہاہے کسی کی راہ
اجنبی مسافر تم اجنبی سی راہوں کے اجنبی مسافر تم اجنبی سی راہوں کے اجنبی مسافر ہم جانے کتنی صدیوں سے زندگی کے رستے پر اوراس سفرمیں تم ایک پل کورکتے ہو اجنبی سی راہوں کی اجنبی مسافت میں دردکی صداؤں
کبھی تقدیر گر میری مجھے رستے میں مل جائے کبھی بھولے سے ہی گَر وہ مری بستی میں آجائے مرے گھر کا پتہ پوچھے کبھی مجھ سے کہے آکر کہ میں تقدیر ہوں تیری بتا کیا چاہئے تجھ کو؟ خوشی درکار ہے تجھ کو؟ ہنسی
سکھی آج یہ کیسی نیند آئی بے خواب آنکھوں کو خواب میں اُس بچھڑے ماہی کی دید آئی اب ڈر کے نہ میں آنکھیں کھولوں اک لفظ نہ خواب میں بھی بولوں کہیں اُس سے بچھڑ نہ جاؤں میں جیتے جی مر ہی نہ جاؤں میں
زندگی میں زندگی دکھ بھر گئی روشنی آنکھوں کی مدھم کر گئی اتنا سناٹا تھا میری روح میں میں تو اپنے آپ سے بھی ڈر گئی میرے عارض جس سے دمکے تھے کبھی ایک دن وہ آرزو بھی مر گئی ہر طرف اک پیاس کا صحرا تھا
دل کو ذرا قرار تھا وہ بھی نہیں رہا آنکھوں کو انتظار تھا وہ بھی نہیں رہا وہ ساتھ تھا تو ساتھ میں میری بھی ذات تھی میرا کہیں شمار تھا، وہ بھی نہیں رہا اُس سے ہوئے جدا تو پھر خود کو بھی کھو دیا خود