یوں تیری قربت بھلا رہی ہوں
یوں تیری قربت بھلا رہی ہوں کہ جیسے دنیا سے جا رہی ہوں رہے تری بے رخی سلامت میں رسمِ الفت نبھا رہی ہوں کسی کی یادیں سلا کر اب تک میں خود کو کیوں کر جگا رہی ہوں کوئی مجھے روز توڑتا ہے میں روز خود
تازہ ترین
یوں تیری قربت بھلا رہی ہوں کہ جیسے دنیا سے جا رہی ہوں رہے تری بے رخی سلامت میں رسمِ الفت نبھا رہی ہوں کسی کی یادیں سلا کر اب تک میں خود کو کیوں کر جگا رہی ہوں کوئی مجھے روز توڑتا ہے میں روز خود
اے دل میرے ، ناشاد مرے ہمزاد مرے، برباد مرے اک عمر سے اس زندان میں ہوں پر کھول مرے آزاد تو کر مرے پیروں میں زنجیرِ وفا اسے توڑ ذرا ،مجھے جوڑ ذرا مجھے جینے کی تہذیب تو دے مری سانسوں کو ترتیب تو دے
کہاں سے ٹوٹی ہوئی ہوں مَیں اور ابھی تلک ہوں کہاں سلامت فریبِ ہستی میں رہنے والے رہے ترا یہ جہاں سلامت نہ کوئی بستی یہاں سلامت ،نہ اس میں کوئی مکاں سلامت یہی بہت ہے ہر ایک چہرے پہ بس ہے اشکِ رواں
زخم اپنے گلاب کر دینا روح کو ماہتاب کر دینا ڈال کر اک نظر محبت کی وقت کو لا جواب کر دینا روح کے زخم روشنی دیں گے ہجر کو آفتاب کر دینا پتھروں سے اگر جو بچنا ہو عکس کو بھی سراب کر دینا باب لکھنا ہو
جو نوحے کسی کی جدائی پہ لکھے زمانے کی ہرزہ سرائی پہ لکھے وہ سب زخم اب پھول بننے لگے ہیں مرے ہجر پر اُس کی یادوں کے دیپک بہت ہنس رہے ہیں مچلنے لگے ہیں یہ دل ایک بنجر زمیں کی طرح تھا یہاں ہم نے جو
دائمی ہے عشق اور اک دائمی آواز ہے میرے کانوں میں ابھی تک بس وہی آواز ہے ساتھ میرے رات بھر جو جاگتی آواز ہے کون جانے یہ تو میری روح کی آواز ہے ہجر کے لمحوں میں اب تک یہ خبر کب ہو سکی جاگتی ہوں میں
سُن میری سہیلی ،بات تو سُن کٹی کیسے عمر کی رات تو سُن اک شام کی لالی اوڑھ کے جب اک یاد میں خود کو توڑ کے جب میں آئینہ بن کر کھڑی رہی گویا اس ہجر کے زیور میں مَیں موتی بن کر جڑی رہی مہ و سال کے
تُو جانتا ہے ہمزاد مرے اے دل میرے، ناشاد مرے جس نام کے سارے حرفوں کو اور نظم کے سارے مصرعوں کو اے دل تُو نے سو بار لکھا اور عشق کے زرد سے موسم کو ہر بار مثالِ بہار لکھا پر آج ترے چارہ گر نے اے دل
آج تھک ہار کے ہم نے تو عجب سوچا ہے تیری یادوں سے کہیں دور بہت دور کہیں ایسی نگری میں ہی اب جا کے بسیرا کر لیں ہجر لمحہ نہ جہاں گریہ کناں ہو کوئی تری یادوں سے نہ اٹھتا سا دھواں ہو کوئی ایسی بستی
اپنے پیروں کے چھالوں اور دل کے زخم کو پھول لکھا ہم نے وصل کی خواہش کو بہکے جذبوں کی بھول لکھا ہم تقدیر کی چال کو تال بنا رقص کناں تو ہیں وقت نے در بدری کو ہمارے جیون کا معمول لکھا