اُس گلی کے راستے کے اور گھر کے درمیاں
اُس گلی کے راستے کے اور گھر کے درمیاں ہو گئی تقسیم میں زیر و زبر کے درمیاں جرم بس یہ تھا کہ منزل کا تعین کر لیا پھر سدا رہنا پڑا ہم کو سفر کے درمیاں اے خدا دہکی ہوئی اس آگ سے نکلوں گی کب؟ تھک گئی
تازہ ترین
اُس گلی کے راستے کے اور گھر کے درمیاں ہو گئی تقسیم میں زیر و زبر کے درمیاں جرم بس یہ تھا کہ منزل کا تعین کر لیا پھر سدا رہنا پڑا ہم کو سفر کے درمیاں اے خدا دہکی ہوئی اس آگ سے نکلوں گی کب؟ تھک گئی
سال تو کم ہیں مقدر میں ترے صدیاں چاہوں غم کبھی بھی نہ ملیں ایسی میں خوشیاں چاہوں خار تقدیر بنیں گردِ سفر کی جاناں تیرے حصے میں فقط پھول اور کلیاں چاہوں اس سفر میں تجھے رستے ملیں اجلے اجلے راہ میں
زمیں ملے کہیں ہمیں ، کہیں تو آسماں ملے دکھوں کی دھوپ میں شجر کوئی تو مہرباں ملے ترے فراق میں جئے ، ترے فراق میں مرے چلو یہ خواب ہی سہی ، وصال کا گماں ملے الم کی شام آگئی ، لو میرے نام آ گئی چراغ
گئی رتوں کی رفاقتوں میں تمہیں ملوں گی مَیں چاہتوں کی ریاضتوں میں تمہیں ملوں گی تم اپنی منزل کے راستوں میں جو دیکھ پاؤ تو راستوں کی صعوبتوں میں تمہیں ملوں گی نہیں ملوں گی کسی بھی وصل آشنا سفر میں
آئینہ تھا ،میں تھی اور اُس کی نگاہوں کا حصار اِس رعایا کو ملا یوں بادشاہوں کا حصار دشت میں زادِ سفر اتنا ہی تھا میرے لئے اشک تھے اورساتھ تھا بس میری آہوں کا حصار کیا کریں ہم کو تو بڑھنے ہی نہیں
مجھ کو وہ حسرتوں کی یوں تصویر کر گیا چنری کو تپتی دھوپ کی جاگیر کر گیا خواہش تو تھی کہ گل کی طرح سے کھلوں مگر وہ زرد سی رتیں ہی بس تقدیر کر گیا جیسے ہی میں دہلیز کے اس پار آگئی دیوارِ ہجر اک نئی
میں نے برسوں عشق نماز پڑھی تسبیحِ محبت ہاتھ لئے چلی ہجر کی میں تبلیغ کو اب تری چاہت کی آیات لئے اک آگ وہی نمرود کی ہے میں اشک ہوں اپنے ساتھ لئے مجذوب ہوا دل بنجارہ بس زخموں کی سوغات لئے دل مسجد
اُجاڑ رات ہے ، تنہائی ہے ، قیامت ہے وہ سامنے ہے کہ جذبوں میں اتنی شدت ہے کل اُس کے لفظ پڑھے تو مجھے کچھ ایسا لگا زبانِ غیر میں لکھی ہوئی عبارت ہے جو میری مانگ میں کچھ زخم جگمگاتے ہیں کسی کے عشق
دل اُسی کا غلام ہے اب تک عشق کا احترام ہے اب تک اس سے آباد شب کی تنہائی اس کا ہی اہتمام ہے اب تک وصل کی راہ میں نہیں کچھ بھی ہجر والی ہی شام ہے اب تک روح میں ہے ابھی مہک اُس کی لب پہ اُس کا ہی
جہاں چاہو میرا نام لکھو ،جو چاہو تم الزام لکھو مجھے عشق نے برسوں قید رکھا ،مجھے ہجر کی گہری شام لکھو مرے جوش جنوں کا یہ تنہا سفر، اے چارہ گرو تمہیں کیا ہے خبر مرے پاس ہے جو بھی یہ دردِ ہُنر،اسے