سال تو کم ہیں مقدر میں ترے صدیاں چاہوں


سال تو کم ہیں مقدر میں ترے صدیاں چاہوں
غم کبھی بھی نہ ملیں ایسی میں خوشیاں چاہوں

خار تقدیر بنیں گردِ سفر کی جاناں
تیرے حصے میں فقط پھول اور کلیاں چاہوں

اس سفر میں تجھے رستے ملیں اجلے اجلے
راہ میں جتنی بھی روشن ہیں وہ گلیاں چاہوں

یہ جو خوشیوں کا نگر ہے یونہی آباد رہے
دکھ کی نگری کو میں ہر حال میں ویراں چاہوں

میں نے شاہین کبھی اپنے لئے مانگا کب ہے
ہر دعا تیرے لئے ہی تومیں اے جاناں چاہوں

30 ju

Facebook Comments