جس کے خیال نے کیا سب سے جدا مجھے


جس کے خیال نے کیا سب سے جدا مجھے

جس کے خیال نے کیا سب سے جدا مجھے

جس کے خیال نے کیا سب سے جدا مجھے
زخموں سے کر گیا ہے وہی آشنا مجھے

الجھی رہی میں ایک ہی رستے میں رات دن
زنداں کے وسط میں کوئی دفنا گیا مجھے

چلنا ہے آندھیوں میں سنبھل کر تمام رات
ہاتھوں میں دے گیا ہے وہ جلتا دیا مجھے

جس راستے میں خار ہیں ، پتھر ہیں ، دھول ہے
اس راہ پر ہی لے کے چلی ہے ہوا مجھے

رہبر سمجھ کر جس کے کبھی ساتھ میں چلی
شاہین اس نے راہ میں الجھا دیا مجھے


Facebook Comments