پھول سے بچھڑی خوشبو جب اپنی آنکھیں بند کرلیتی ہے تو پھر اس سے ایسے ہی سخن کی خوشبو فضا کو معطر کردیتی ہے جیسے ہماری محترمہ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ نے اپنے دوسرے مجموعہ کلام اور اپنی شاعری کی خوشبو سے دنیائے ادب کومعطر کردیا ۔مجھے ان کا یہ خوبصورت مجموعہ کلام لندن میں مقیم ممتاز شاعر اور معروف کالم نگار محترم سہیل احمد لون نے بھیجا کہ اس پر اپنی رائے لکھیں۔۔ لکھنے کو تو میں نے اب تک تین سوسے قریب کتابوں پر مضامین لکھ ڈالے جو مطبوعہ بھی ہوئے مگر اس دیدہ زیب کتاب نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ سوچتا ہوں کہ مضمون مکمل کرنے کے بعد اخلاقی طور پر یہ کتاب سہیل لون صاحب کو واپس دینی ہوگی ۔۔اور کتاب اس قدر خوبصورت ہے اس کی شاعری اس قدر عمدہ ہے کہ ۔۔۔ نیت خراب ہورہی ہے ۔۔!!(گو ایسا نہیں کروں گا ۔)اس میں کوئی شک نہیں کہ میری ذاتی لائبریری میں کم از کم بھی چار سو کتب موجود ہیں گیارہ اپنی کتابیں شائع ہوچکی ہیں اپنے ذاتی ادارے ’’سویرا اکیڈیمی ‘‘ سے اٹھارہ کتابیں شائع کر چکا ہوں مگر آج تک اس قدر خوبصورت کتاب نہیں دیکھی،اے فور سائز میں گلاسی قیمتی کاغذ سے مزین عمدہ جلد بندی چہار رنگا ڈبل سرورق،نہایت اعلی کوالٹی کی پرنٹنگ ، اس پر ڈاکٹر نجمہ شاہین کی خوبصورت تصویر کے ساتھ اعلی و ارفع شاعری سونے پر سہاگہ ۔۔ کتاب ہاتھ میں لیں تو جیسے سارے گلستان سے چنے ہوئے خوبصورت پھولوں کا گلدستہ ہاتھ میں آگیا ۔میں مبارکباد دیتا ہوں محترمہ ڈاکٹر صاحبہ کو ان کے اعلی ذوق و پسند اور خوبصورت درد سے بھری شاعری پر ۔۔۔ جسے پڑھ کر کبھی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں اور کبھی دل دھڑکنا بند کردیتا ہے ۔
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کو میں ذاتی طور پر نہیں جانتا مگر ان کی شاعری نے یہ سارے فاصلے طے کردیئے کیونکہ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ سچا اور کھرا قلمکار وہی لکھتا ہے جو اس کا من کہتا ہے اس کی تحریر اس کا پرتو ہوتی ہے وہ اپنی تحریر سے ہی پہچانا جاتا ہے ۔اگر ایسی بات نہ ہو تو اس کی تحریر قاری کو متاثر نہیں کرسکتی ۔ ڈاکٹر نجمہ شاہین انسانیت کے ایک اعلی ترین مقدس پیشے سے تعلق رکھتی ہیں وہ بیمار جسموں میں نئی روح پھونک کر انہیں زندہ رکھنے کا ہنر جانتی ہیں ۔اسی طرح وہ اپنے اشعار میں بھی یہ سحر انگیزی کرتی دکھا ئی دیتی ہیں انہوں نے زندگی کے ہر دکھ سکھ ، حالاتِ حاضرہ ، ملکی حالات ،دکھی انسانیت ، انسانی نفسیات ، محبت پیار ،نفرت ،دھوکہ فریب ،غرضیکہ زندگی کے تمام عناصر پر نہایت خوبی سے قلمکاری کی ہے۔شاعر ہمیشہ دوسروں کے دکھوں کو اپنے اندر سمو کر محسوس کرتا ہے اور اپنے قلم سے اس کا اظہار کرتا ہے۔ یہاں تو بات ہی ایک ڈاکٹر کی ہورہی ہے جو اپنے ہر مریض کا درد اپنے دل میں سمو کر اس کا علاج کرتا ہے ۔سچ لکھا ہے سعد اللہ شاہ جی نے کہ اپنے شعبے سے جنوں کی حد تک عشق کرکے انسانیت کی خدمت کیلئے ہمہ تن مصروف رہتے ہوئے زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنے خوابوں کو متشکل کرکے اپنی امنگوں کو تصویروں میں ڈھالنا کسی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔۔!!بلا شبہ یہ کام ہماری شاعرہ نے کیاجو قابل تحسین ہے ۔
شبِ فرقت کے ستارے یہ گواہی دیں گے
ہم دل و جاں میں کئی روگ بسا لائے ہیں
ڈاکٹر نجمہ شاہین کے کلام سے جو مجموعی تاثرملتا ہے کہ انہوں نے جھوٹی روایات کے بجائے مثبت قدروں سے رشتہ جوڑا ہے ان کی شاعری ایسا آئینہ ہے جس میں ان کے احساسات و جذبات کی نزاکتیں اور لطافتیں، ان کے متخیلہ کا انداز ان کی فکر کی گہرائیوں اور وسعتوں میں یکجا ہوکر کلیتہً نظر آتی ہیں۔
اپنے مجموعہ کلام کو اللہ پاک کے نام سے شروع کیا ۔
ہر ایک بحر و بر میں تُو ، وجودِ خیر و شر میں تُو
ہر ایک سمت جلوہ گر جہاں میں اے خدا ہے تُو
نعت رسول مقبول کہنے کا انداز ملاحظہ ہو۔
کہوں نعت کیسے ،سیلقہ سکھا دو مری سانس کو موجِ خوشبو بنا دو
اور پھر سخن کی خوشبو ہر سُو اس طرح پھیلی کہ میں کتاب کے آخر تک ایک ایسے سحر میں ڈوبا رہا کہ ۔۔
اب مہک تیری مری ہر پور میں یوں رچ گئی
منتظر ہیں آنکھ میں کچھ حیرتیں دہکی ہوئی
دیدہ و بینا رکھنے والے کسی بھی شاعر کا ذہن اپنے دور کی تلخ اور بے رحم حقیقتوں کو نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ ڈاکٹر نجمہ شاہین بھی اپنے ملکی و ملی و سماجی ماحول کے نمایا ں مسائل سے متاثر ہیں۔
گلی گلی میں بس رچی ہوئی ہے خون کی مہک
یہ موسم بہار بھی عجب تجھے وطن ملا
اور پھر ایک طویل بے یقینی اور بے اطمینانی کے بعد وہ کس قدر مایوسی سے کہتی ہیں۔
لبوں پہ جو دعائیں تھیں کہاں نہ جانے کھو گئیں
ہر ایک راہ گزار پر ہمیں تو راہزن ملا
اس خوبصورت مجموعہ کلام میں غزلیں نظمیں شامل ہیں جو الگ الگ حصوں میں تقسیم کی گئیں۔ قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے جب وہ مختلف اصناف میں پڑھتا رہے اس طرح یکسانیت کی بوریت نہیں رہتی ۔ تین سو ساٹھ صفحات کی ضخیم جہازی سائز کتاب جس میں شاعرہ اپنی آنکھیں بند کرکے مگر کھلے دل کے ساتھ اپنے من کی باتیں اپنے دل کی باتیں کرتی چلی جاتی ہے، وہ گلہ کرتی ہے کہ ۔
جس کے خیال نے کیا سب سے جدا مجھے
زخموں سے کر گیا ہے وہی آشنامجھے
اور جب وہ انسانوں کی بھیڑ میں کبھی تنہارہ جاتی ہے تو تنہائی اسے ایک نیا کردار دے جاتی ہے۔
غضب کی مار دیا ہے ہمیں یہ دردِ تنہائی
نیا کردار دیتا ہے ہمیں یہ دردِ تنہائی
اور پھر اسی دردِ تنہائی کی زمین سے سخن کے پودے پھوٹنے لگتے ہیں ۔۔
بڑی مشکل سے ملتا ہے مقامِ آگاہی شاہیںؔ
عجب شاہکار دیتا ہے ہمیں یہ دردِ تنہائی
غزل میں ڈاکٹر نجمہ شاہین کی فکر کا محور محبوب کی ذات ہے ،محبوب سے گلے شکوے اس کی بے وفائی کا گلہ ،اپنے محبت کا یقین ، تنہائی درد ، یادیں،اداسی ،آہیں سسکیاں اور آنسو ان عناصر کے بغیر غزل رہتی بھی تو ادھوری ہے نا ! انہوں نے انہی موضوعات کو زیادہ استعمال کیاہے ۔ ہم لوگ محبت سے بتا کس کو پکاریں د نیا میں کوئی ہم سا ہمارا نہیں ملتا
انہوں نے اپنے اس خوبصوت مجموعے کو جہاں کئی رنگوں سے سجایا ہے وہاں وہ خود کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے قلم سے لفظوں،خیالوں دکھ اور سکھ سے سجے موتیوں ،یادوں کے ڈھیروں پر اٹھنے والی چنگاریوں کو شعلہ بنانے اور دل کی بنجر زمین پہ پھول اگانے کی تمنا کی ہے اور پھر ان تمام تمناؤں کو سخن کا بیج کی طرح کاغذ کی زمین میں بو دیا ۔۔ اور دیکھئے کیسے کیسے رنگ برنگے پھولوں کے گلستان کھل اُٹھے۔۔ جسے انہوں نے ’’ میں آنکھیں بند رکھتی ہوں‘‘ کا نام دیا ۔
ان کی نظمیں بھی درد کی زمین سے اٹھتی ہیں اورحسرتو یاس کے فلک میں کھو جاتی ہیں۔ ان کی نمائندہ نظم ’’میں آنکھیں بند رکھتی ہوں‘‘ نہایت عمدہ تحریر ہے جس کا ایک بند ملاحظہ ہو۔کہتے ہیں نا دیگ سے ایک دانہ چاول کا چکھنے سے ساری دیگ کے ذائقے کا علم ہوجاتا ہے ۔
’’جب کرچی کرچی شیشوں میں /بکھرے بکھرے شہروں میں /جب دل کی نگری لٹتی ہے/ اور دولت کی دیوی پر /محبت قربان ہوتی ہے /اور سچائی دم توڑ دیتی ہے /جب اندھی الجھتی بجلیاں /آسمان سے گرتی ہیں /کسی غریب کا گھر جلاتی ہیں/تو ایسے بے بس لمحوں میں /میں آنکھیں بند رکھتی ہوں۔‘‘
گو مجھے ایک بات عجیب سی لگی۔۔ کہ معاشرے میں ناانصافی دیکھ کر شاعر یا قلمکار اپنی آنکھیں بند نہیں کرتا بلکہ اسے کھلی آنکھوں سے دیکھ کر اس ظلم کے خلاف اپنی قلم سے جہاد کرتا ہے احتجاج کرتا ہے ۔ میری کم فہمی کہ میں محترمہ شاعرہ کے اس فلسفے کو سمجھ نہیں پایاجس کے تحت انہوں نے اپنے اس مجموعے کا نام ’’میں آنکھیں بند رکھتی ہوں‘‘ ۔۔۔!!
ان کی نظموں کے ہر بند ہر سطر میں ان کی جودت طبع اور طرز فکر کا نمونہ نمایا ں ہے جہاں موجودہ معاشرے میں ناانصافیاں بے رحمانہ رویہ اور سچائیاں سلگتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔اس مجموعہ میں ان کی بے شمار نظمیں اسی طرح آنسو ؤں میں قلم ڈبو دبو کر لکھی ہوئی لگتی ہیں۔جسے ہر حساس قاری سانسیں روک کر پڑھتا ہے ۔
میں جوں جوں اس کتاب کے اوراق پلٹتا گیا اس کی کہکہشاں میں چمکتے ستارے میری آنکھوں کو خیرہ کرتے گئے ، میری انگلیاں بے تابی سے کی بورڈ پر رقصاں ہونے لگیں اور الفاظ کا جھرنا بہنے لگاجو اپنی وسعتوں میں ایک عمیق سمندر لئے ہوئے کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا تھامگر افسوس کہ کاغذ کا پیرہن تنگ سے تنگ ہوتا مجھے مجبور کررہا ہے کہ میں دعائیہ کلمات کے ساتھ اپنے مضمون کا اختتام کردوں۔
ان کا تخلیقی عمل ایک طرح کا اعترافِ خود شناسی ہے جو اشعار کے نزول کا نہ صرف باعث بنتا ہے بلکہ ان کے اور قاری کے درمیان ایک نہ مٹنے والا ذہنی و قلبی رشتہ بھی استوار کرتا چلاجاتا ہے۔ان کی غزلوں کی طرح ان کی نظموں میں بھی ایسی روانی ہے کہ قاری پڑھتا چلا جاتا ہے ۔میں دوسروں کی مانند مجموعہ کلام کے چیدہ چیدہ اشعار سے کاغذ کا پیٹ نہیں بھرتا۔۔یہ کام آپ کا ہے کہ کتاب حاصل کرکے ڈاکٹر نجمہ شاہین کی خوبصورت شاعری کا لطف اٹھائیں۔میرا کام ان کا اور ان کے اس مجموعہ کلام سے تعارف کرانا ہے۔
مجھے یقینِ کامل ہے کہ جس طرح ان کے پہلے مجموعہ کلام ’’پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘ نے قارئین کی تمام توجہ حاصل کی اسی طرح انشا ء اللہ ان کایہ خوبصورت دیدہ زیب مجموعہ کلام بھی دنیائے ادب کے پروانوں کو اپنی جانب کھینچ لے گااور پوری پذیرائی حاصل کرے گی ۔
میں اپنی نظم و غزل ان کے نام کرتی ہوں
کہ جن کا ذکر محبت کی داستان میں ہے
میں شاعری میں اسے ڈھال دوں مگر شاہینؔ
کہاں و حسن و لطافت مری زبان میں ہے
اللہ کرے آپ کی قلم ہمیشہ محبتوں کی داستانوں کو حسن و لطافت سے بھرپورشاعری میں ڈھالتی رہیں اور آپ کے گلستان ادب میں سخن کے پھول مہکتے رہیں۔۔۔آمین
تازہ ترین
- متفرقجشن آزادی مبارک 2024
- متفرقٹوٹے تارے سے ہوئی مات
- متفرقمیری زندگی میں تجھ سے بہت تھک کے جا رہی ہوں
- متفرقزمانے کیا لکھے گا تو اپنی تاریخ میں
- متفرقجشن آزادی مبارک
- متفرقجشن آزادی مبارک
- متفرقڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ
- متفرقڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ
- فوٹو گیلرینشتر میڈیکل کالج ،،،،کلاس فیلوز کے ساتھ ایک یادگار دن18-12-29
- متفرقکچھ یادیں۔۔۔۔۔کچھ یادگار پروگراموں کی یادگار تصاویر