دسمبر ترا نام تو ہجر ہوتا ۔


nn
نہ جانے ادیبوں‌ شاعروں نے دسمبر پر کیسے رومانوی نظمیں کہہ ڈالیں‌؟ کیسے اسے اپنی غزلوں کا موضوع بنا لیا؟ ۔۔ ہمیں تو جب بھی یہ ستم گر ملا اس کے دامن میں ہجر ہی ہجر ملا ۔۔ اس کی آہٹوں میں ، اس کی یخ بستہ راتوں اور کہر آلود صبحوں میں بس بین کرتے ہجر کی آہٹیں ہی سنائی دیں‌۔ سسکیاں‌ہی سنائی دیں تاریکیاں ہی دکھائی دیں‌ ۔ ماتم کرتے لمحے عطا کئے اس نے ہمیں ، درد بھرے نوحے دان کئے ۔ دسمبر نے آنگنوں‌میں‌کھلے گلاب ٹہنیوں‌ سے نوچ ڈالے اور ہماری آنکھوں‌ کو لہو رنگ کر دیا ۔ دکھوں‌ اور ہجر کو ہمارے سنگ کر دیا ۔ کہر لمحوں‌ میں‌ بھی اس نے ہمیں‌دھوپ بخشی ، دلوں‌ اک ہوک بخشی ۔ تاریکیاں ہم پر مہربان ہوئیں ۔ ویرانیاں اسی دسمبر کے مہینے میں‌ ہماری شان ہوئیں ۔ ابھی تو ہماری آنکھوں میں وہی ہجر سلامت ہے جو دسمبر کی شاموں نے ہمیں خوابوں کی جگہ بخشا تھا ۔ ابھی تو ہم 16 دسمبر کی وہ خوں‌رنگ صبح نہیں‌بھولے تھے جو اپنے دامن میں تاریکیاں لے کر آئی تھی اور جس نے اسی روز ہونے والے سقوط ڈھاکہ کے المیئے کو بھی مات کر دیا ۔ہم سے ہمارے جگمگاتے ستارے چھین لئے ہمارے روشن مستقبل کو سیاہ اور بد نما دھبہ لگا دیا ۔ ابھی تو وہی زخم تازہ تھے بلکہ اب تو وہ ناسور بن چکے ہیں‌۔ ابھی انہی زخموں سے لہو رِس رہا تھا ، ابھی تو ہاتھ وہی نوحے لکھ رہے تھے ۔ ابھی تو آنکھیں‌اسی المیئے پر گریہ کناں تھیں‌اور دکھیاری مائوں کے کانوں‌میں‌اپنے شہزادوں‌کی چیخیں‌ تھیں‌اور کان دروازے پر آہٹ کے منتظر تھے ۔ ابھی تو وہ بے بسی کے ساتھ اور ا پنی ویران آنکھوں‌ سے آسمان کو تکتی تھیں‌۔ اے دسمبر ابھی تو وہی ایک زخم مندمل نہیں‌ہوا تھا کہ تیرے ٹھٹھرتی شام نے اپنی یخ بستگی سے نجات حاصل کرنے کے لئے پھر سے شعلے اگل دئے۔ آہ یہ کیسی بے بسی ہے ، یہ کیسا المیہ ہے کہ جانے والا مدینے والے کا پیغام عام کرتا کرتا مدینے والے کے پاس چلا گیا ۔ دنیا کی ٹیڑھی اور رنگین راہوں کو چھوڑ کر چکا چوند اور چندھیا دینےوالی روشنیوں سے دور ، بہت دور ۔ حق سچ کا اور نور کی حقیقی روشنی کا ہالہ اپنے گرد لپیٹے وہ چلے گئے ۔ جنید جمشید ہم سے بچھڑ گئے ۔ انہوں نے چترال کی سرزمیں‌کو جنت کا ٹکڑا کہا اس جنت کے ٹکڑے پر اپنی آخری تصویر بنوائی ۔ وہاں آخری نماز ادا کی اور پھر جنت کے سفر پر روانہ ہو گئے ۔ ایک جنید جمشید ہی نہیں‌گئے ، ایک سچا راہبر ایک سچا انسان ، انسانیت کا خدمت گزار ہی نہیں گیا اور بھی بہت سے لوگ اگلے جہان کو سدھار گئے ۔ کتنے ہی گھر اجڑ گئے ، مائوں کے لختِ جگر گئے سہاگنوں کے دلبر گئے اور دسمبر ہمیں پھر سے ہجر دے گیا ۔ میں کیسے پرسہ دوں ان ہجر کے ماروں کہ مجھے معلوم ہے ہجر وہ زخم ہے جس کا کوئی مرہم نہیں ۔ یہ وہ درد ہے جس کی دوا نہیں اور یہ وہ دکھ ہے جس کا کوئی دلاسہ نہیں‌۔ سو اے دسمبر تو ہمیں ایک اور دکھ دے گیا
اسے کہنا کہ حیرانی مجھے حیرت سے تکتی ہے
مرے جیون پہ خود بھی زندگی روتی ہے ہنستی ہے
نظر جب بھی ہتھیلی کی لکیروں سے الجھتی ہے
ان آنکھوں سے جھڑی ساون کی
پھر کچھ ایسی لگتی ہے
مرا دل رک سا جاتا ہے
مہینہ ہجر کا جب بھی
مرے آنگن میں آتا ہے
اداسی کے ہر اک منظر کو وہ موجود پاتا ہے
نگاہوں کو جھکا کر بس دسمبر لوٹ جاتا ہے


Facebook Comments