رضی ۔۔ محبت دین ہے جس کا ۔۔ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ


رضی الدین رضی! عصر حاضر کا ایک ایسا تخلیق کار ،دانشور ،ادیب اورصحافی جس کے ہر لفظ میں سچائی ہے۔ خود اعتمادی، حاضردماغی، برجستگی، شرارت و ظرافت کی شائستگی اپنے افکار و نظریات سے وابستگی پہ ایمان، حق گوئی، سچائی ، حق شناسی ،بے لوس انس و اپنائیت اورخلوص ۔یہ تمام اوصاف یکجا ہو جائیں تو رضی بنتاہے۔
رضی الدین رضی کو رضی الدین رضی کہیں یا محبتوں کا امین ۔بات تو ایک ہی ہے کہ دین کی اساس محبت ہی تو ہے اور رضی کا دین بھی محبت ہے۔ محبتوں کے اس سفیر کی محبت کی کوئی ایک سمت نہیں۔ اس کی محبت اس خوشبو کی سی ہے جو ہوا کے جھونکے کے ساتھ گلستان سے نکلتی ہے اورزمانے کے ماحول کو خوشگوار بنا کر ذہنوں کو آسودگی بخشتی ہے۔ انہیں اپنے خوابوں سے، ان کی تعبیر سے ، دکھوں سے, دکھوں سے ملنے والی آنچ سے ، دوستوں سے،منزل سے، منزل کی طرف جانے والے راستوں،راستوں میں ملنے والے ہر راہرو سے، اپنی سرزمین ، اپنے شہر اور اس کی گلیوں سے، غرض ہر چیز سے محبت بلکہ عشق ہے اور ہونا بھی چاہیئے کہ زندگی کو مثبت انداز میں ایک ڈگر دینے کیلئے اور خوابوں کو عذاب بنانے والے لمحوں سے فرار کیلئے یہ محبت اور یہ عشق انتہائی ضروری ہے ورنہ تاج محل کیسے تعمیر ہو کہ تاج محل کو مضبوط بنیاد تو محبت ہی فراہم کرتی ہے۔
ان کا وجود اس معاشرے کے لئے محبت کا استعارہ ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ایک ایسا تاج محل تعمیر کیا جس کی بنیادان کی ذاتی محبت ہے اور پھر انہوں نے اس ذاتی محبت کو آفاقی محبت میں تبدیل کیا اسے معاشرتی بد صورتیوں کے خلاف علامت بنایا ۔نفرتوں کا بیج بونے والوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ۔آمریت کے خلاف مزاحمت اور انسانی حقوق کے لئے جدوجہد اور تاریکیوں کے خاتمے کے لئے اسی محبت کو رضی الدین رضی نے مشعل بنا دیا ۔ان کی ذاتی محبت یادوں اور حسرتوں کا امتزاج ہے۔ لیکن اسی محبت کے شعور نے انہیں زمانے میں معتبر بنادیا ہے اور یہی ادراک اور آگہی انہیں معاشرے کے ایک فعال انسان کا روپ دیتی ہے کہ جب محبت ذات کے دائرے سے نکل کر آفاقی صورت اختیار کرتی ہے تو امر ہو جاتی ہے۔
اظہا رِذات کے جذبے کو خدائی صفت کہا جاتا ہے اور اظہار کا یہی جذبہ ایک شاعر یا ادیب کو معاشرے میں ایک الگ مقام دلاتاہے ۔ اس منفرد مقام تک پہنچنے اور اس کی بنیادیں مضبوط رکھنے کیلئے سچائی اورخلوص بہت اہم ہیں اور رضی الدین رضی کی شاعری میں یہ خلوص بھی شامل ہے اورمکمل سچائی بھی۔شاعری محض انسانی جذبات واحساسات کی پیش کش کا نام نہیں بلکہ اس میں اعلیٰ اخلاقی اقدار موجزن ہیں اور ایک شاعر ان اخلاقی اقدار کا مبلغ بھی ہوتاہے اور پاسبان بھی۔ ایک مخلص و سچے شاعر کی شاعری میں ماضی حال اور مستقبل کی نشانیاں جلوہ گر ہوتی ہیں۔یہ سب کچھ ہمیں رضی کے ہاں بھی پڑھنے کو ملتا ہے ۔
مبارک باد دینا چاہتے تھے
مگر لوگوں کو پرسہ دے رہے ہیں
ہم ایسے لشکری اس جنگ میں ہتھیار کیوں ڈالیں
کہ ایسا کام تو اپنے سپہ سالار کرتے ہیں
ہمیں بھی چاہئے صاحب کوئی خلعت ،کوئی منصب
محاذِ جنگ سے ہم بھی تو بس ناکام آتے ہیں
رضی الدین رضی کے کلام کا اگرعمیق نگاہی سے مطالعہ کیا جائے تو احساس ہوتاہے کہ انہوں نے کس قدر خوش سلیقگی سے خون جگر کی روشنائی سے شعر وادب کے ایوان سجائے ہیں ۔ان کے کلام میں روایت اور جدت کا حسین امتزاج ہے ،کہیں روایت جدت کی کوکھ سے جنم لیتی محسوس ہوتی ہے اور کہیں جدت روایت سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔وہ جدید ڈکشن کے شوق میں بے معنویت کی سطح پر نہیں جاتے جیسا کہ ہمارے ہاں بعض جدید شعرا کے کلام میں یہ صورتِ حال دکھائی دیتی ہے اسی طرح وہ یکسر روایتی انداز اختیار کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں ۔وہ بہت احتیاط کے ساتھ اپنے لئے نیا راستہ تلاش کرتے ہیں اور اپنی بات ہم تک پہنچا دیتے ہیں۔وہ شاعری میں سچ بولتے ہیں اسی لیے ہر پڑھنے والے قاری کو محسوس ہوتاہے کہ وہ اسکے دل کی بات کر رہے ہیں۔ان کا اسلوب سخن انتہائی سادہ اور عام فہم ہے اور اسی باعث دل میں اتر جاتاہے بھاری بھر کم اور غیر مانوس الفاظ کی بجائے عام فہم اور سادہ الفاظ سے کام لیتے ہیں اور یہ اسلوب سخن ان کی شاعری میں ایک ایسا منفرد ماحول بناتا ہے جو بہت کم شعرا کے ہاں ملتا ہے ۔ ان کے کلام کا بڑا حصہ دامن دل کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور قاری کو متاثر کرتاہے۔ ان کی شاعری کا بنیادی موضوع محبت ہے ۔ہر مصرعے میں جو کسی بھی ڈھنگ سے سرزمین سخن پررنگ بکھیرے محبت کا معصوم اور رو پہلا روپ برقرار رہتا ہے۔ ان کے سخن کی ندیا دھیرے دھیرے عقیدتوں کے دھارے میں بہتی ہے اور محبت کے انتہائی موسموں میں کبھی کبھی اور کہیں کہیں بہکی ہوئی بے کناربھی ہونے لگتی ہے ۔ یہ محبت ہی تو ہے جو موجب کائنات ہے۔ اور جب یہ دیوانگی کی راہ اختیار کرے تو عشق کہلاتی ہے اور عشق تو پھر اس بات سے بے پرواہ ہوتاہے کہ کون کیا ہے اور اسے کون کیا کہتاہے ۔ اسے تو صرف اپنے محبوب کی کہنی ہے اسی کی سننی ہے باقی تو سب اس کیلئے فانی ہے بس وہی لافانی ہے، ہزاروں رنگ لیے ہزاروں ڈھنگ لیے۔ عشق نے شاعری کے روپ میں رضی الدین رضی کے دل کو اپنا مسکن بنایاہے اور شعروں کی صورت میں آہستہ آہستہ سرزمین دل سے پوری کائنات میں بکھر گیا۔
رضی الدین رضی کی شاعری میں بے ساختگی ہے۔ہر شعر مکمل سچ اور حقیقت کے اتنا قریب کہ قاری کو احساس ہوتا ہے کہ جیسے انہوں نے اس کے دل کی بات کہہ دی ہو۔جیسے رضی نے وہی کہہ دیا جو اس کے دل میں دے ۔جیسے رضی نے اس کے دکھوں کو زبان دے دی ۔وہ مشاھدات اور تجربات سے روشنائی کشید کر کے جو شعر کہتے ہیں وہ دھندلائے ہوئے منظروں کو بھی روشن کر دیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں یاس وپیاس کے ساتھ ساتھ امید وآس بھی ہے خواہ وہ صرف خوابوں کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے اشعار میں کسی پر شور دریا کی تلاطم خیز روانی سے کہیں زیادہ نرم رفتار اور دھیمے انداز میں بہتی ہوئی ندی کی نغمہ سرائی ہے جو حساس دلوں کو سنہرے خواب دکھلاتی اس طرح پاس سے گزر جاتی ہے کہ آہٹ بھی محسوس نہیں ہوتی ۔ انکے شاعرانہ اظہار میں غمِ حالات سے لڑنے کا حوصلہ بھی ہے اور زندگی سے پیار کا شعور بھی ۔ان کے کلام میں بلند ہمتی ہے ، نشاط امید بھی اور شب غم کی تاریکی میں اپنے اشکوں کو استعارہ بنادینے کا ہنر بھی وہ خوب جانتے ہیں۔ آنسو اور غم ان کے ساتھی ہیں ۔ہجر اور دکھ کے معانی وہ بخوبی سمجھتے ہیں۔ غموں سے انکار رشتہ بہت پرانا ہے لیکن انہیں غم کے لمحوں میں مسکرانا بھی آتا ہے۔ غم جاناں اور غم دوراں کو انہوں نے منفی نہیں لیا بلکہ انھی دکھوں سے شعور وآگہی اور ادراک حاصل کیااور اسی ادراک کو روشنائی بنا کے صفحہ قرطاس پہ شعروں کے موتی بکھیرے۔رضی دکھوں کو اپنی قوت بنانے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔
7مئی 1964 ء کو لائل پور (آج کا فیصل آباد) کے علاقے مائی دی جھگی میں شیخ ذکاالدین اوپل کے گھر پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی یتیمی کی دھوپ سے آشنا ہوئے۔بیوہ ماں نے باپ بن کر پرورش کی اور رضی کو دکھوں کا مقابلہ کرنے کا درس دیا۔’’ماں کی دکھ بھری کہانی ‘‘کے عنوان سے ایک مضمون میں رضی الدین رضی لکھتے ہیں کہ سچ بولنے اور کڑوی بات کسی خوف کے بغیر سرِ محفل کہہ دینے کا ہنر میں نے اپنی ماں سے ہی سیکھا۔پیدا تو فیصل آباد میں ہوئے لیکن بعد کی ساری زندگی ملتان میں گزاری ۔ یہیں پلے بڑھے اوریہیں شعر وسخن کی آبیاری کیلئے وصل و ہجر کے موسموں سے روشناس ہوئے۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ1995ء میں’’دن بدلیں گے جاناں‘‘ ، دوسرا1999ء میں’’ ستارے مل نہیں سکتے ‘‘ تیسرا 2003ء میں ’’تمیں دل میں بسانا ہے ‘‘ اور چوتھا شعری مجموعہ 2010ء میں ’’الگ ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ان شعری مجموعوں کے علاوہ ان کی گیارہ مزید کتب بھی شائع ہو چکی ہیں ۔
ان کی شاعری پرکسی اور شاعر کی چھاپ نہیں اور یہی خوبی انھیں ایک منفرد اور الگ ساشاعر بناتی ہے۔ادب کی دنیا کے اس مسافر نے اپنے لیے الگ سی دنیا بسائی اور ایک الگ سی شمع جلائی۔یہی وجہ ہے کہ رضی الدین رضی آج اردو شاعر ی کا منفرد نام ہے ۔وہ ملتان کے ادب کا محوربن چکے ہیں۔ آج انہی کی قیادت میں سخنور فورم اور اسکے زیر اہتمام منعقدہ شعروادب کی تقریبات ملتان کو ادب کے میدان میں ایک الگ سی حیثیت دلارہی ہیں۔
رضی الدین رضی باشعور اورحساس انسان ہیں۔ دوستوں سے انتہائی محبت کرنے والے ۔ وہ دوستوں کے دکھوں کو اپنا دکھ اور ان کی تکلیفوں کو اپنی تکلیف سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی ان سے زیادتی بھی کرجائے تو ان کی مہربانیوں میں کمی نہیں آتی۔ان کے کلام میں معاشرے کے مسائل بھی ہیں اورزندگی کی الجھنیں بھی ۔ تنہائی ، اداسی اور بولتے سناٹوں کی گونج بھی ہے اور آنے والے کل کیلئے امید کی کرن بھی ۔
میں ہجر میں بسا ہوا خوشی سے مرہی جاؤں گا
اگر کبھی وہ میرے پاس واقعی میں آ گیا
انہوں نے غزل کو ایک نئے رنگ و آہنگ سے آشنا کر دیا ۔قدرت ان پر مہربان تھی سو اس نے رضی الدین رضی کو شاعری کے فکری اور تخلیقی عوامل سے آگاہ رکھنے میں قطعاً بخل سے کام نہ لیا۔وہ جس سادگی ،سہولت اور جولانی ء طبع کے ساتھ غزل کہتے ہیں اسی آسانی ،روانی اور بے ساختگی کے ساتھ نظموں کی دھیمی دھیمی اور نرم و گداز کیفیت سے بھی روشناس کراتے ہیں۔چند نظموں کے مصرعے دیکھئے
اگر پاس ہوتا تو تجھ کو سناتا؍دکھوں کی کہانی؍کہانی کہ جس میں بہت ہے روانی؍کہانی کہ جو یاد آئے کبھی تو؍ٹپکتا ہے آنکھوں سے؍مصرعوں کی صورت معطر سا پانی؍مری نظم ہوتی ہے پھر جاودانی
ان مصرعوں میں جو روانی اور سادگی ہے وہ اپنی جگہ لیکن ان میں انہوں نے اپنی نظم کی وہ ساری کیفیات بھی بیان کر دی ہیں جن کا میں نے ابھی ذکر کیا۔اور پھر ان کی شہرہء آفاق نظم ’’ستارے مل نہیں سکتے ‘‘کے یہ مصرعے تو اردو شاعری سے دلچسپی رکھنے والے ہر فرد کے دل کی دھڑکن بن چکے ہیں
ہمارے سامنے تاروں کے جھرمٹ میں اکیلا چاند ہوتا تھا ؍جو اس کے حسن کے آگے بہت ہی ماند ہوتا تھا؍فلک پر رقص کرتے انگنت روشن ستاروں کو؍جو ہم ترتیب دیتے تھے تو اس کا نام بنتا تھا
دوستوں کے لئے شعر و سخن کی دنیا میں مشعل بننے والا شخص اپنے لیے یہ کہہ رہا ہے۔

ہمیں رستے میں ہی رہناپڑے گا

کہ ہم لوگوں کو رستہ دے رہے ہیں

رہے چاہت سلامت تا قیامت

بچھڑ کر اس کا صدقہ دے رہے ہیں

موجودہ دور میں دہشت گردی ، طبقاتی اور رنگ و نسل کے امتیازات ، فسادات سب سے بڑا عذاب ہیں۔ آج کوئی بھی حساس انسان اس کے اثرات سے دور نہیں ایسے میں ایک حساس شاعر بھلا کیسے پہلو تہی کرسکتاہے۔ خوف و دہشت اور اضطراب کے اس جلتے تپتے صحر امیں دکھوں کی تیز دھوپ ان پر بھی اثراندازہوتی ہے ۔کہتے ہیں

ہوائیں قید کرکے روشنی کو مار دیتے ہیں

یہ کیسے لوگ ہیں زندگی کو ماردیتے ہیں

یہ دنیا ان چراغوں کے دھوئیں سے آج روشن ہے

جو بجھتے ہیں مگر ہر تیر گی کو ماردیتے ہیں

رضی الدین رضی اپنے ملک اپنے شہر اپنے گلی کو چوں سے محبت کرنے والے انسان ہیں ان کے لفظ لفظ میں اپنے وسیب کی محبت رچی ہے۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتاہے انہیں رضی الدین رضی کی بجائے رضی ملتانی لکھوں کہ وہ ملتان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور اس شہر کی ادبی ، ثقافتی اور صحافتی تاریخ کو بہت سلیقے کے ساتھ محفوظ کر رہے ہیں ۔ان کی کتاب ’’رفتگانِ ملتان‘‘اور ادبی و ثقافتی جریدہ ’’ارضِ ملتان ‘‘اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اضطراب اور خود غرضی کے اس دور میں جب حرص وہوس نے انسان سے اسکی پہچان چھین لی ہے رضی الدین رضی جیسے مخلص ،بے لوث اور محبت کرنے والے لوگوں کا وجود ایک نعمت سے کم نہیں۔

16-02-12

68082_4428047252096_1904479819_n

Facebook Comments