زمانے کیا لکھے گا تو اپنی تاریخ میں
فلسطین کے لئے (نثری نظم)
زمانے گواہ رہنا
گواہ رہنا
کیسے کر رہا ہے شیطان اپنی ہوس کی تسکین
دیوار گر یہ پہ روتے ہوئے ابلیس کے یہ امین
سالہاسال سے اجل کا کھیل کھیلتے ہوئے
لہو لہو کر رہے ہیں انبیا کی سر زمین
زمانے گواہ رہنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمانے کیا لکھ پائے گا تو؟
کیسے مائیں بچوں کے سر بریدہ بدن کو دیکھتی ہیں؟
کیسے لٹی عصمتیں زخموں سے چور تن کو ڈھانپتی ہیں؟
کیسے مقتل کی جانب مسکرا کے بڑھتی یہ نڈر بیٹیاں؟
اس عہد ستم کے علم کو اٹھائے کسی منصف کا سو چتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمانے تونے سوچاہے کبھی؟
کیوں سجدوں میں یہ گردنیں پڑی ہوئی ہیں؟
وقت کے ناخداو¿ں پہ آنکھیں گڑی ہوئی ہیں؟
شعلوں میں لپٹی یہ معصوم ننھی جانیں؟
کیوں اب تلک یروشلم کے سنگ کھڑی ہوئی ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمانے تو جانتا ہی ناں؟
اپنے گھر’اپنی زمین سے کٹ جانے کا دکھ؟
لشکر غم کی ہواﺅں میں بٹ جانے کا دکھ؟
دربدری اورجلاوطنی کی اذیت ہوتی ہے کیا؟
پرندوں کا غول سے چھٹ جانے کا دکھ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمانے تو دیکھ پائے گا کیا؟
انبیا کی سر زمیں پہ سجے اتنے ننھے کفن؟
سرخ آزادی کی قیمت میں چور چور سے بدن؟
خوف سے لرزیدہ یہ راہیں یہ گلیاں، چمن؟
کیسے تارتار ہیں جواں جسموں کے بانکپن؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سن زمانے، اب مری بات سن
اس رات کی آخر سحر بھی تو ہوگی
خدائے لم یزل کو اسکی خبر بھی تو ہوگی
تیرے حاکم یہ دستک اب سنیں’نہ سنیں
شنوائی مگر روز حشر بھی تو ہو گی
روبرو ہوگا اس دن تیرے اوراق پر
کھلتے پھول ملائے ہیں تو نے خاک پر
روئے گا اس دن اپنے اسلاف کی راکھ پر
زمانے کیا لکھے گا تو اپنی تاریخ میں اسباق پر
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ