عالمی اردو کانفرنس استنبول ۔۔ 12 تا 14 اکتوبر 2015


                    استنبول میں منعقدہ تین روزہ عالمی اردو کانفرنس کا احوال 
ترکی میں اردو تدریس کی ایک صدی مکمل ہونے پر استنبول یونیورسٹی کے شعبہ ادبیات کے زیر اہتمام 12 سے 14 اکتوبر تک سہ روزہ عالمی اردو کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اس کانفرنس میں خاص طور پر ترکی اور برصغیر پاک و ہند کے باہم مراسم کے حوالے سے مقالہ جات پیش کئے گئے اور دنیا بھر میں اردو زبان و ادب کے فروغ اور ترویج کے موضوع ات زیر بحث آئے ۔
کانفرنس کا انعقاد استنبول یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ اور دنیا بھر کے اردو دانوں میں ہر دلعزیز شخصیت ڈاکٹر خلیل طوقار کی کوششوں کی وجہ سے ممکن ہو سکا ۔ اس طرح دنیا بھر سے اردو کے قلمکاروں کو ایک جگہ پر اکٹھے ہو کر بات چیت کرنے، مختلف ملکوں میں اردو زبان کے حوالے سے ہونے والے کام کو جاننے اور روابط استوار کرنے کا موقع بھی حاصل ہوا۔ ڈاکٹر طوقار گزشتہ چھ ماہ سے اس سمپوزیم کے انعقاد کے لئے سرگرم تھے اور انہوں نے اس کانفرنس کو بامقصد اور مفید بنانے کے لئے دنیا کے سترہ ممالک سے اردو ماہرین کو استنبول آنے کی دعوت دی تھی۔ اس طرح یہ کانفرنس حقیقی معنوں میں عالمگیر حیثیت اختیار کر گئی۔ کانفرنس کے شرکا اگرچہ ترکی میں موجود تھے اور وہاں کی بول چال اور لکھنے پڑھنے کی زبان فطری طور سے ترک ہے لیکن اس موقع پر چونکہ سب لوگ اردو جاننے والے تھے اس لئے استنبول یونیورسٹی کے کانفرنس ہال اور اس سے منسلک لابی پر تین روز تک اردو کا بول بالا رہا۔ سب اسی زبان میں ایک دوسرے سے بات چیت کرتے تھے اور تمام سیشن بھی اردو زبان میں ہی منعقد ہوئے تھے۔
کانفرنس کے دوران ڈاکٹر خلیل طوقارنے سمپوزیم کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اردو کو اپنی محبوبہ قرار دیا اور کہا کہ ہم اس محبوب اور ہر دلعزیز زبان کو مرتا ہوانہیں دیکھ سکتے۔ اس کی بقا اور احیا کے لئے ہر سطح پر ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ ڈاکٹر طوقار کے اس محبت بھرے اعلان اور عہد کا بھرپور تالیوں سے خیرمقدم کیا گیا۔
ڈاکٹر خلیل طوقار نے اپنی تحقیق کے دوران اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ ترکی میں اردو زبان کم از کم سو برس سے متعارف ہے۔ 1915 میں ہی ہندوستان سے آئے ہوئے خیری برادران کی جدوجہد اور کوششوں سے اس زبان کی تدریس استنبول یونیورسٹی میں شروع ہو گئی تھی۔ اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ زبان عام سطح پر اس برس سے بہت پہلے ترکی پہنچ چکی تھی۔ ڈاکٹر طوقار نے نہ صرف تاریخی حوالوں سے ترکی میں اردو کی تدریس ، صحافت اور اردو دانوں کی موجودگی کا کھوج لگایا ہے بلکہ دن رات انتھک محنت کے ذریعے استنبول یونیورسٹی میں اردو کو ایک مقبول مضمون کی حیثیت سے بھی متعارف کروایا ہے۔ کانفرنس کے دوران ڈاکٹر خلیل طوقار کے ساتھی اور طالب علم یکساں طور سے سمپوزیم کو کامیاب بنانے اور مندوبین کو سہولتیں بہم پہنچانے کے لئے سرگرم رہے۔ اس طرح اردو اور اس کے ماہرین سے ترک طالب علموں کی محبت سب شرکا کے لئے باعثِ طمانیت تھی۔
اس عالمی اردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے استنبول یونیورسٹی کے وائس چانسلر ، استنبول کے میئر اور استنبول میں بھارتی قونصل خانہ کے نگران کے علاوہ پاکستانی سفارتخانے کے نمائندے نے شرکت کی۔ اس موقع پر مقررین نے اس سے بھی اہم سنگ میل قرار دیا۔ بھارتی قونصل جنرل نے خطاب کرتے ہوئے تاریخی حوالوں سے ہندوستان اور ترکی کے تعلقات اور دونوں خطوں کے عوام کے روابط پر روشنی ڈالی۔ اس حوالے سے بھارتی سفارتکار کے علاوہ دیگر مقررین نے بھی خاص طور سے تحریک خلافت کا ذکر کیا جو سلطنت عثمانیہ کی حمایت میں شروع کی گئی تھی اور ہندوستان کی مقبول اور طاقتور ترین تحریکوں میں شامل ہے۔ افتتاحی اجلاس میں سفارتی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کی کمی محسوس کی گئی تاہم اختتامی اجلاس میں انقرہ میں متعین پاکستانی سفیر سہیل محمود نے شرکت کر کے اس کمی کو پورا کر دیا۔
حکومت پاکستان نے ترکی میں اردو تدریس کے سو برس مکمل ہونے پر ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا ہے۔ سفیر پاکستان نے پرزور تالیوں کے شور میں اس کا اعلان کیا اور اس ٹکٹ کی تصویر بھی حاضرین کو دکھائی۔ سفیر پاکستان نے اردو کے لئے ڈاکٹر خلیل طوقار کی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 30 کتابیں اور 200 تحقیقی مقالے لکھے ہیں جو ایک گراں مایہ علمی خدمت ہے۔ پاکستانی سفیر نے امید ظاہر کی کہ اس کانفرنس کے انعقاد سے اردو زبان کے فروغ کے علاوہ ترکی اور پاکستان کے تعلقات بھی مزید مضبوط اور گہرے ہوں گے۔ اس اجلاس میں لندن سے آئے ہوئے اردو کے ممتاز پاکستان نژاد شاعر سلمان شاہد نے ایک قرار داد پیش کی جس میں حکومت پاکستان سے ڈاکٹر خلیل کی اردو کے فروغ اور مختلف ملکوں کے عوام کو قریب لانے کے لئے کوششوں کے صلے میں سول ایوارڈ دینے کی سفارش کی گئی ۔ یہ قرار داد اتفاق رائے سے منظور ہوگئی اور سفیر پاکستان کے ذریعے حکومت پاکستان کو بھجوادی گئی
کانفرنس کے دوران برصغیر میں مسلمانوں کی تحریک آزادی میں خلافت عثمانیہ کا کردار ، اردو کی ترویج کے نئے امکانات ، جنوبی ایشیا اور ترک، اردو بطور شناخت ، اردو تدریس کے مختلف پہلو، مختلف ممالک میں اردو زبان کی صورتحال اور دیگر اہم اور دلچسپ موضوعات پر مقالے پیش کئے گئے۔ ترکی میں اردو تدریس کے سو سال مکمل ہونے پر ہونے والے اس جشن کے حوالے سے کانفرنس کا موضوع ‘‘ ترکی اور برصغیر کے مسلمان‘‘ مقرر کیا گیا تھا اس لئے زیادہ تر مقالے بھی اسی موضوع کی مناسبت سے پیش کئے گئے
اس سمپوزیم میں دیگر لوگوں کے علاوہ امریکہ سے اردو کے شاعر اور انگریزی کے استاد محترم ستیہ پال آنند ، بینا گوئیندی، کینیڈا سے معروف محقق اور نقاد اور معالج محترم ڈاکٹر تقی عابدی، شاعرہ محترمہ عروج راجپوت، ناروے سے اردو ٹیلی ویڑ ن کے روح رواں ڈاکٹر ندیم حسین سید، محمد ادریس احمد، روزنامہ کارواں کے روح رواں ڈاکٹر مجاہد حسین سید، ڈنمارک سے اردو ادب کی معروف لکھاری، شاعرہ صدف مرزا، برطانیہ سے اردو ادب کا سرمایہ اور بی بی سی اردو ریڈیو سروس کے محترم رضا علی عابدی، معرو ف لکھاری مقصود الہی شیخ، مہ جبیں غزل انصاری اور انکے شوہر نسیم الحق ا نصاری، ، فن لینڈ سے ارشد فاروق فرانس سے محترمہ سمن شاہ، پاکستان سے اکیڈمی آف لیٹرز کے چیئرمین ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو اور معروف شاعرہ محترمہ فاطمہ حسن اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سے پروفیسر ڈاکٹرنجیب جمال، معروف افسانہ نگار محترمہ عطیہ سید ، خیر پور یونیورسٹی سے ڈاکٹر یوسف خشک اور انکی اہلیہ صوفیہ خشک، وریئنٹل کالج پنجاب یونورسٹی شعبہ اردو کے صدر نشین پروفیسر محمد کامران، شعبہ پنجابی کے صدر، فیصل آباد جی سی یونیورسٹی سے پروفیسر طارق ہاشمی کے علاوہ کراچی سے زبان یار من ترکی کے مصنف عبیداللہ کہیر ، اور لاہور سے معروف صحافی اور دانشور فرخ سہیل گوئندی,وریئنٹل کالج لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد ، پروفیسر نگار سجاد ظہیر ، ،ڈیرہ غاذی خان [پاکستان]سے گایناکالوجسٹ اور شاعرہ ڈاکٹرنجمہ شاہین کھوسہ ،اور کئی دوسرے معروف اردو دان خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ ماسکو یونیورسٹی سے پروفیسر لوڈ میلا، کویت سے جناب افروز عالم،، بھارت سے ناول نگار نند کشور وکرم،جواہر لعل یونیورسٹی دہلی کے شعبہ اردو کے صدر خواجہ اکرام الدین ، نجمہ رحمانی اور ڈاکٹر سلیم محی الدین،سید انوار عالم، سید محمد یحیٰ صبا، اور دیگر نے شرکت کی۔ جرمن ڈاکٹر ہائنز ورنر، بنگلہ دیش سے ڈاکٹر محمود الاسلام اور تہران یونیورسٹی کے شعب? اردو کی بھرپور نمائندگی جن میں ڈاکٹر علی بیات، ڈاکٹر کیومرثی، محترمہ وفا یزداں اور ڈاکٹر فرزانہ عزم لطفی شامل تھیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش، .افغانستان کی جامعات میں اردو کی درس و تدریس کے ماہرین اوراساتذ کے علاوہ استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے اساتذہ اور متعدد مندوبین نے شرکت کی

اس موقع پر ترکی اور وسط ایشیاء میں مسلمانوں کے حوالے سے ایک تصویری نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا۔ نمائش کاافتتاح سفیر پاکستان جناب سہیل محمود نے کیا ,,
استنبول میں سہ روزہ عالمی اردو کانفرنس شروع ہونے سے ایک روز قبل انقرہ میں ایک خود کش حملہ میں ایک سو سے زیادہ افراد شہید ہوگئے تھے۔ اس سانحہ پرترک حکومت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا۔ اس کے اثرات کانفرنس اور اس میں شریک ہونے والے مندوبین پر بھی دیکھے گئے۔ افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مندوب اور ترک امور کے ماہر اور محقق فرخ سہیل گوئیندی نے دہشت گردی کے اس واقع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مرنے والوں کے احترام میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کی تجویز دی۔ سب حاضرین نے اس طرح مرحومین کو خراج عقیدت پیش کیا۔ دیگر مقررین نے بھی اس سانحہ پر اظہار افسوس کیا۔ اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سفیر پاکستان سہیل محمود نے دہشت گردی کے اس واقع کی مذمت کرتے ہوئے ترک حکومت اور عوام کے ساتھ اظہار افسوس و ہمدردی کیا۔،
کانفرنس کے مندوبین نے تینوں دن ہوٹل کے ہال میں مشاعرے منعقد کئے اور ایک دوسرے کے کلام کو سنا
دن بھر سمپوزیم کے سیشن بھگتانے کے بعد شام کو ہوٹل کی لابی میں جمع ہو جاتے۔ پہلی شام ہی ہوٹل کی لابی میں جب سب جمع ہوگئے تو خواتین میں محترمہ بیناگونییدی ، صدف مرزا ، مرد حضرات میں محترم افروز عالم اور سرور غزالی نے اعلان کیا کہ استنبول کانفرنس ادھوری رہ جائیگی اگر اتنے شعراء اور شاعرات کے ہوتے ہوئے مشاعرے منعقد نہ ہوئے۔ سو سب حاضرین جو اُس وقت لابی میں جمع تھے انہیں پابند کرکے مشاعرہ شروع کردیا گیا۔ سینئر اُردو دان جن میں ستیہء پال آنند، رضا علی عابدی اور تقی عابدی صاحبان کو صدارت اور مہمانِ خصوصی کے منصب پر فائز کردیا گیا۔ لابی میں پہلے دن تو ہوٹل انتظامیہ نے برداشت کیا اور ہر آنے جانے والا اس مشاعرے سے محظوظ ہونے کیلئے رک جاتا۔ جناب تقی عابدی صاحب سے مشاعرے کی یہ بے ادبی برداشت نہ ہوئی اور انہوں نے ہوٹل انتظامیہ سے درخواست کرکے علیحدہ سے ایک کمیٹی روم کا انتظام کرلیا اور یوں اگلی دونوں شاموں میں پُرسکون ماحول میں مشاعرے منعقد ہوئے۔ ان مشاعروں کے انعقاد سے دنیا بھر سے آئے ہوئے وہ لوگ جو دن بھر کانفرنس کی گہماگسمی میں ایکدوسرے سے مناسب طور پر متعارف نہ ہوے تھے، اُنہیں ایک دوسرے کو جاننے اور ایکدوسرے سے متعارف ہونے کا اچھا موقع مل گیا۔ انہوں نے نہ صرف ایکدوسرے کے کلام کو سنا اور سراہا بلکہ ایکدوسرے کو اپنے اپنے دیوان بھی تحفتً پیش کیے۔ ان مشاعروں میں کلام پر نہ صرف توصیفی اور تعریفی کلمات چلتے بلکہ جب ایک شاعر اپنا کلام سنا چکا ہوتا تو استادانِ ادب اس کلام کے وزن، بحر اور خیال پر دل کھول کر تبصرہ کرتے۔
مشاعرے کی تقریب کی صدارت جناب ستیہ پال آنند کے ذمہ ہوتی اور مہمان خصوصی رضا علی عابدی صاحب اور تقی عابدی صاحب ہوتے۔ شرکت کرنے والوں میں بیناگویندی (امریکہ)، صدف مرزا (ڈنمارک)، ڈاکٹر نجمہ شاہین (پاکستان)، عروج (کینڈا)، وفا یزدان اور فرزانہ لطفی (تہران)، افروز عالم کوئت، ارشد فاروق (فن لینڈ )، ڈاکٹر سید ندیم اور ادریس (ناروے)، ڈاکٹر کیومرسی اور ڈاکٹر بیات علی (ایران)، عطیہ سید، فاطمہ حسن، طارق ہاشمی، عبیداللہ کہیر، حمیدہ شاہین، ڈاکٹر ضیاء الحسن (پاکستان) سے شامل ہوئے۔
آخری شام مندوبین نے اپنے ہر دلعزیز میزبان ڈاکٹر خلیل طوقار کو ایک سرپرائز کیک پارٹی دیاور انکی عظیم الشان خدمات کو سرا ہا,, اور اس تاریخی کانفرنس کے انعقاد سے دنیا بھر سے اردو زبان کے دانشوروں، صحافیوں، ادیب، شعراء کو ایک جگہ ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے،اور باہم گفت و شنید اور تبا د لہ خیالات کرنے کے مواقع میسر آ ئے
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ


Facebook Comments