غضب کی مار دیتا ہے ہمیں یہ دردِ تنہائی


غضب کی مار دیتا ہے ہمیں یہ دردِ تنہائی
نیا کردار دیتا ہے ہمیں یہ دردِ تنہائی

دھری رہتی ہے سب اپنی انا اس دشتِ وحشت میں
کئی آزار دیتا ہے ہمیں یہ درد تنہائی

شب ہجراں کی ظلمت ہی مقدر بن گئی اپنا
دلِ بیدار دیتا ہے ہمیں یہ دردِ تنہائی

مزا باقی ہے جینے کا ،نہ موت آئی ہے غربت میں
فرازِ دار دیتا ہے ہمیں یہ دردِ تنہائی

نظر کے سامنے ہیں گلشنِ عالم کی تاریخیں
جنونِ کار دیتا ہے ہمیں یہ دردِ تنہائی

بڑی مشکل سے ملتا ہے مقامِ آگہی شاہیں
عجب اظہار دیتا ہے ہمیں یہ درد تنہائی


Facebook Comments