محبت کی شاعرہ ۔۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے تاثرات


آج کا اردو شاعر اس عبوری دور میں سانس لے رہا ہے ‘ جہاں اس کے پیچھے کلاسیکی غزل کی وہ تابناک روایت بھی ہے جو بیسویں صدی کے شروع میں ہی ختم ہوگئی اور پھر وہ اندھا کنواں بھی ہے جس میں سکہ بند روائتی غزل آج تک ڈوبی ہوئی ہے۔ڈاکٹر نجمہ شاھیں کھوسہ کی ’’اور شام ٹھہر گئی‘‘ میں مشمولہ غزلوں پر میں رائے دینے سے احتراز کروں گا لیکن ان کی نظموں نے مجھے یقیناًمتاثر کیا ہے۔ ان کی نظمیں دیگر معتاد ، اسٹیریو ٹائپ شعرا کی طرح گذشتہ نصف صدی کے شہرہ ور نظم گو شاعروں ،(بطورِ خاص فیض احمد فیضؔ ) کی لفظیات کے دسترخوان کے باقی ماندہ بچے کھچے ٹُکڑوں سے پاک ہیں جن پر قانع رہ کر بہت سے شاعر آج تک غزلیں اور نظمیں لکھے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ جدیدیت کی تحریک میں بہہ کر مضمون ‘ متن ‘ اور اسلوب کی سطحوں پر انتشار ‘ افشار ‘ ایہام اور یادہ گوئی کا شکار ہونے سے بالکل بچ رہی ہیں ۔ انہوں نے اس تحریک کا اثر بالکل قبول نہیں کیا۔ ان کی کچھ نظمیں یقیناً ’’بڑی ‘‘ نظمیں ہیں جنہیں سراہا جانا چاہیے۔ محبت ایک پاک جذبہ ہے، اس میں صوفیانہ عشق کی آسماں بدست بلندی سے لے کر تعشق اور ہوس کی تحت الثرا تک شاعروں نے طبع آزمائی کی ہے۔ نجمہ شاھیں کی نظموں میں یہ جذبہ ان دو بے نہایت حدود کے درمیان اس سطح مرتفع پر قائم ہے، جسے ہم ’’من و تو‘‘ کا علاقہ قرار دے سکتے ہیں۔ا س ’ من و تو ‘ میں ’من ‘ تو یقیناً شاعرہ کا واحد متکلم ہے ‘ وہ خود ہے یا اس کی انا ہے لیکن ’ تو ‘ محبوب بھی ہوسکتا ہے ‘ دوست بھی ہوسکتا ہے ‘ نامہرباں آسماں بھی ہوسکتا ہے اور ظالم و حاکم بھی ۔ اس کی ایک وجہ تو غزل کی چار سو برس پرانی اور مستحکم وہ روایت ہے جس نے غزل ہی کو نہیں بلکہ اردو نظم کو بھی اب تک ’ من و تو ‘ کے حصار میں قید کر رکھا ہے اور دوسری وجہ آسان راہوں کے سفر کو پرپیچ راستوں پر فوقیت دینا ہے۔ “محبت اک ضرورت ہے‘‘، ’’یہ عشق بستی بسانے والو”، “محبتوں کا یہ طورِ سینا”، ” موسمِ وصل کے استعارے میں ہوں”، “تجھے تو خبر ہے”، “گر ہم کو تم جھٹلاؤ گے” جیسی کئی اور نظمیں اس پاک و صاف جذبے کو جہاں خوشروئی اور شائستگی سے بیانیہ یا مکالمہ کے فارمیٹ میں ڈھالتی ہیں، وہاں پُرکاری اورسحر کاری کا انداز بھی اپناتی ہیں۔ وصل اور ہجر تو کیفیات ہیں، لیکن ان کے تہہ در تہہ معانی میں وفاداری یا بے وفائی اور ان کے متعلقات کے بیسیوں حصاروں میں مقیدتازہ کاری سے مزین وہ مضامین بھی ہیں جو شاعرہ کی غزلوں اور نظموں دونوں میں بکثرت موجود ہیں۔ مجھے نجمہ شاھیں کھوسہ کی شاعری سے بہت امیدیں ہیں۔ ((ڈاکٹر) ستیہ پال آنند واشنگٹن ، ڈی سی، امریکا ۱۵ / اپریل ۲

satya pall

Facebook Comments