مِل رہی ہیں چار سُو کیوں وحشتیں بکھری ہوئی
کس گلی میں رہ گئیں وہ قربتیں نکھری ہوئی
اب مہک تیری ، مری ہر پور میں یوں رچ گئی
منتظر ہیں آنکھ میں کچھ حیرتیں دہکی ہوئی
ہجر کی وحشت نے دل کو کر دیا رنجور اب
بھولتی جاتی ہوں میں اب صورتیں دیکھی ہوئی
اب کہاں اور کس رفاقت میں مجھے لینی ہے سانس
شہر میں ملتی ہیں ہر جا فرقتیں بکھری ہوئی
وادیوں میں دل کی اب خاموش سی اک شام ہے
دشت میں کھو ہی گئیں وہ شدتیں مہکی ہوئی
پائی تھیں ہم نے کبھی رنگوں بھرے اس شہر میں
گم ہوئیں چاہت بھری وہ صحبتیں نکھری ہوئی