مکالماتی نظم ۔۔آخری ملاقات کا منظر


میں کہتی کیسا لگتا ہے بعد برسوں کے
پھر اک حسیں ملاقات کا منظر
وہ کہتا !
دیکھ رہا ہوں اس دنیا میں قبول
حرفِ مناجات کا منظر
میں کہتی !
کیا اب بھی یاد ہے برسوں پہلے کے
اس آخری ملاقات کا منظر
وہ کہتا !
ذہن و دل پہ نقش ہے اب تک
ان اجلی آیات منظر
میں کہتی !
وہ کون تھاجس نے ہمیں برباد کیا ناشاد کیا
وہ کہتا !
بھول جاؤ گزرے ہوئے اْن تلخ لمحات کا منظر
میں کہتی!
تم بھی بے قرار سے لگتے ہو!
کس غم میں گُھلتے رہتے ہو
وہ کہتا !
آنکھوں میں رہتا ہے اب تک
اک اجڑی ہوئی بارات کا منظر
میں کہتی !
کس دیس گئے ، کیوں چاند بنے میری عید کا
وہ کہتا !
کیوں نقش ہوا تم پہ اب تک
پہلے پیار کی برسات کامنظر
میں کہتی !
کیا بھر جائیں گے کبھی یہ زخم جدائی کے
یہ ظلم تجھ ہر جائی کے
وہ کہتا !
بدلتا رہتا ہے پل پل میں
سبھی کے درجات کا منظر
وہ کہتا !
آؤ ہاتھ ملائیں ، وقت جدائی آ پہنچا ہے
بچھڑنا ہے پھر سے ، حکم خدائی آ پہنچا ہے
میں کہتی !
تجھ سے ہی تھا قائم میری حیات کا منظر
اب نہ بھولوں گی میں اپنی موت کی مدارات کا منظر
رہے گا قائم یہ موت و حیات کا منظر

30292_1449299478787_3501481_n

Facebook Comments