نظم ۔۔ اعترافِ وفا


کیا تھا اک بار اگر
تم نے بھی اعترافِ وفا کیا ہوتا
زمانے سے تجھ کو بھی جدائی کا گلہ ہوتا
جرمِ وفا کے معنی کو
تم نے بھی پڑھا ہوتا
جس نے دل سے تجھے چاہا تھا
کبھی اُس کو اپنا بھی کہا ہوتا
دلِ نامعتبر کو کچھ تو رتبہ دیا ہوتا
ہاں یہ بھی حقیقت ہے جاناں
غموں کی دھوپ کڑی ہے بہت
نہیں دیتا اس میں ساتھ کوئی
گلزار راہوں کے ساتھی ہیں بہت
کانٹوں پہ نہیں چلتا ساتھ کوئی
غموں میں تیرے ساتھ رہے
یہ مجھ کو بھی منظور نہیں
بس تیرے اعتراف سے جاناں
تیرے چند لفظوں کا آسرا ہوتا
اک تیرے اعتراف سے
جیون کی جلتی راہگزاروں میں
جینے کا حوصلہ ملا ہوتا
اک بار
بس ایکبار
کاش تم نے اعتراف وفا کیا ہوتا


Facebook Comments