نظم ۔۔ میں آنکھیں بند رکھتی ہوں


جب رخ یہ وقت بدلتاہے
تقدیر جو مجھ پہ ہنستی ہے
میری معصوم سی پلکوں پہ
جب خواب نئے وہ چنتی ہے
جب خواب وہ ٹوٹنے لگتے ہیں
ان خوابوں کی کرچیوں کے خوف سے
میں آنکھیں بند رکھتی ہوں
میرے خاموش لبوں سے
جب لفظ روٹھنے لگتے ہیں
اور یوں محسوس ہوتا ہے
جیسے دہکتے سورج کی تپش
نرم و نازک پھولوں کو
بیدردی سے مسلتی ہے
تو ایسے دشت لمحوں میں
میں آنکھیں بند رکھتی ہوں
جب کرچی کرچی شیشوں میں
بکھرے بکھرے شہروں میں
جب دل کی نگری لٹتی ہے
اور دولت کی دیوی پر
محبت قربان ہوتی ہے
اور سچائی دم توڑ دیتی ہے
جب اندھی الجھتی بجلیاں
آسمان سے گرتی ہیں
کسی غریب کا گھر جلاتی ہیں
تو ایسے بے بس لمحوں میں
میں آنکھیں بند رکھتی ہوں
جب معصوم سوچ کی راہوں میں
کوئی بن کے ہمراہی دور تک ساتھ چلتا ہے
بہت دور تک ساتھ چلتا ہے
پھر راہ بدلنے لگتا ہے
اور راہرو بننے لگتے ہے
تب جدائی کے خوف سے
ضبط کی حد سے گزر کرجب آنکھوں کا بند
یہ ٹوٹتا ہے
میں آنکھیں بند رکھتی ہوں
جب اُسکی یادوں کے جھروکوں میں
میں خیالوں کاریشم بُنتی ہوں
اور وہ ریشم کھل کے بکھرتا ہے
میری تخلیق بکھرنے لگتی ہے
میں آنکھیں بند رکھتی ہوں
اگر میں آنکھیں کھولوں گی
کتنے دل خفا ہوں گے
میرے سچ کی سانس سے
اس شہر کی بھیڑ میں
کتنے چہرے رسوا ہوں گے
میں شکستہ دل ، چاک قبا
اپنے رِستے ہوئے زخموں کا لہو
اپنے صبر کی اوٹ میں ڈھکتی ہوں
جب درد کی ٹیسیں
میری پتلیوں میں چبھتی ہیں
اور روح بے چین ہوئی
میں آنکھیں بند رکھتی ہوں


Facebook Comments