چاہت تو صدیوں روتی ہے
چاہت تو صدیوں روتی ہے
ہجر کا چولا پہن کے اکثر
وصل کے خواب لئے آنکھوں میں
تعبیروں کی اک ست رنگی
مالا روز پروتی ہے یہ
بلک بلک کر روتی ہے یہ
ہاتھ میں خالی کاسہ لے کر
موسم _گل کو پت جھڑ کر کے
دشت_ جنوں میں بادل کر کے
اور خرد کو پاگل کر کے
ویراں ویراں بانجھ دلوں میں
وصل کے بیج بھی یہ بوتی ہے
درد سے درد کو جب دھوتی ہے
پھر خود بھی صدیوں روتی ہے
آج تلک یہ سمجھ نہ آیا
رونا ہی جب لیکھ ہے اس کا
کیوں پھر خواب پروتی ہے یہ؟
بلک بلک کر روتی ہے یہ
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ