[کیا آج معیاری ادب تخلیق ہورہا ہے؟ [ادب پیچھے ادیب آگے
ایک مشکل سا سوال، مگر ایک آسان اور سیدھا سادہ جواب کہ ’’نہیں‘‘ یہ سچ ہے کہ آجغزل، نظم اور افسانہ لکھنے والے بہت لوگ ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان میں سے تخلیق کار کتنے ہیں۔ ایک تخلیق کار بننے کے لیے درد، کرب، ظلم و ستم اور جبر کے خلاف مزاحمت کا جو ایک سفر طے کرنا پڑتا ہے وہ آج کے اس آسائشوں کے دور میں کہاں؟
قلم کی طاقت کو جبر کی طاقت سے جیتنے کے لیے بہت سی آسائشوں اور سہولتوں کو چھوڑنا پڑتا ہے جو کہ ظاہر ہے آج ممکن نہیں۔ آج ایک لکھنے والا بڑے زور و شور سے ایک دن لکھتا ہے اور دوسرے دن اس کے قلم کو خاموش کرنے کے لیے اس کی حق گوئی اور بے باک سوچ کا زاویہ تبدیل کرنے کے لیے صدر یا وزیراعظم کا ایک بلاوہ ہی کافی ہوتا ہے۔
آج ادب یکسانیت کا شکار ہے۔ ادیب اور شاعر اپنی شناخت کھو چکے ہیں۔ پہلے کتابیں اتنی زیادہ تعداد میں شائع نہیں ہوتی تھیں، اخبارات بھی چند ایک ہی ہوتے تھے۔ چند برسوں پہلے تک جو ادبی رسائل و جرائد چھپ رہے تھے ان کا ایک نام اور معیار تھا۔ ادبی محفلیں آباد تھیں، قہوہ خانوں، ادبی بیٹھکوں اور تنقیدی محافل میں شعراء و ادباء شامل ہوتے اور ادب پر تنقیدی اور تخلیقی گفتگو ہوتی اور اس باہمی مشاورت میں بہترین ادب تخلیق ہوتا۔
آج اخبارات کے رنگین صفحات پر شاعروں، ادیبوں کے فوٹو سیشن اور انٹرویوز باقاعدگی کے ساتھ ہورہے ہیں، ادب پیچھے رہ گیا اور ادیب نمایاں ہوگیا۔
کچھ شاعر اور ادیب خاص طور پر بیرون ملک مقیم ادیب و شعراء اپنی دولت کے بل بوتے پر اپنے لیے خصوصی اشاعتوں کا انتظام کراتے ہیں، پھر ایسی اشاعتوں اور تقریبات کی خصوصی نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں کے ساتھ مخصوص لفافے لف کیے جاتے ہیں جو ان کی اشاعت کو ممکن بناتے ہیں۔ ان کا ادبی حوالہ صرف چند غزلیں اور نظمیں ہوتی ہیں۔ بلکہ آج کل تو شعر و ادب کے مکمل مسودے خریدے اور بیچے جاتے ہیں۔ ایسے میں ادب کیسے تخلیق ہو۔ کیسے اقبال، میر، غالب، مومن، جوش اور فیض پیدا ہوں۔ تخلیق شعور و آگہی کا سفر ہے اور شعور وہ احساس ہے جو زمانے کی تپتی دھوپ، کرب سے ایک تخلیق کار کے اندر جنم لیتا ہے اور تخلیق کار اپنے شعور کی روشنائی سے اس احساس کو سپردِ قلم کرتا ہے اور یوں تخلیق جنم لیتی ہے۔
پہلے کسی شاعر کا تعارف صرف اور صرف اچھی شاعری اور وہ تخلیق ہوتی تھی جس میں لفظ بولتے تھے ۔۔لفظوں میں چھپا ہوا درد اور کرب اور شعور و آگہی خود روشنی بن کر ادیب کو نمایاں کرتا ،،،ادب صرف بڑے بڑے ہوٹلوں میں کھانوں اور بڑے نام والے ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ تصاویر بنوا کر فیس بک پر اپ لوڈ کرنے کا نام نہیں تھا بلکہ حقیقی شاعروں کے حقیقی اور خوبصورت لفظ خود روشنی بن کر اس کی شاعری اور شخصیت کا تعارف بنتے ،،،آج ادب صرف چند گروپوں اور چند ٹولوں تک محدود ہے جس میں ؛اندھا بانٹے ریوڑیاں اور اپنوں ہی اپنوں کو دے ؛کے مصداق صرف ایک دوسرے کو نوازا اور سراھا جاتا ھے ،،،
پہلے مشاعرے باقاعدگی سے منعقد ہوتے تھے اور لوگ بہت ذوق و شوق سے مشاعروں میں شرکت کرتے تھے۔ پنڈال کھچا کھچ بھر جاتے تھے اور دور دور سے لوگ مشاعرے میں شریک ہوتے تھے اور رات رات بھر مشاعرے سنتے تھے۔ آج اچھے مشاعرے کی محفل منعقد کرنے کے لیے سرکاری سرپرستی لازمی ہے اور آج وہ سننے والے سامعین بھی نہیں رہے۔
غیر روایتی شعراء اور غیر روایتی سامعین نے مشاعروں کا ماحول تبدیل کردیا ہے۔ آج وہ شاعر بھی نہیں اور وہ سامعین بھی نہیں۔ کیونکہ آج کی تخلیق میں وہ حق و سچائی بھی نہیں، پھر جھوٹ کو آخر کب تک زندہ رکھا جائے۔ وہ ادب بھی نہیں رہا، وہ تخلیق بھی نہیں رہی
۔ڈاکٹر نجمہ شاہین ؔ کھوسہ