ہر دل عشق دے قابل نا ہیں ،،،،،


یقیں اور گماں اور یہ زندگی بس ایک سفر ہی تو ہے ، ایک سوال ہی تو ہے ،
رواں دواں ، دکھ اور سکھ کا ، لمحوں اور کردار کے بدلتے مناظر لیے ، آس اور نا امیدی
کا چاہت اور ضرورت کا ۔ ھاں اور ناں کا ، عشق اور وحشت کا ،
الہام اور یقیں کا۔ یہ سب ایک ہی کہانی کے کئی کردار ہیں ۔
ان کرداروں میں سے کچھ اَمر ہیں اور کچھ اپنی قوت اور طاقت اس اَمرکردار پہ صرف کرنے والے،
خود کو فنا کر کے اسے بقاو دینے والے
یقیں اور گماں کے اس سفر میں دکھ ہی وہ کردار ہے جو اپنا لگنے لگتا ہے اور دکہ ایسا ساتھ دینے لگتا ہے
کہ لگتا ہے زندگی میں جیسے سکھ کوئی معنٰی ہی نہ رکھتا ہو۔
اور انسان دکھ اور سکھ دونوں کے اظہار میں مختلف رویے اور طریقہ اپناتا ہے
کہ یہ دونوں تو وقت کی گردش میں وقت گزارنے کا بس بہانہ ہیں۔
اور وقت کا کام گزرنا ہے اس کو اس سے کوئی سرو کار نہیں کہ کون کیسے جی رہا ہے کبھی اپنی صدیوں
کے اس کٹھن سفر میں چند ایسے لمحے چھوڑ جاتا ہے جو بقا ء ہیں جو انسانی ارتقا ء کواس کے آغاز سے
انجام تک پہنچاتے ہیں اور وہ لمحے بہت عجیب ہوتے ہیں
’’ جو نہ جینے دیتے ہیں نہ مرنے دیتے ہیں مگر وہی اثاثہ ہوتے ہیں ‘‘
ایک ایسا اثاثہ جو زندگی کے اس کٹھن سفر میں زادِ راہ ہوتا ہے کہ اس کے بغیر زندگی کا خرچ کہاں سے لایا جائے
کہ اس کے بغیر زندگی کا سفر کیسے کٹے
سفر چاہے خوشی کا ہو یا دکھ کا
بہر حال خرچ تو مانگتا ہے ۔اثاثہ تو مانگتا چاہے وہ اثاثہ ساری زندگی کے بدلے چند لمحوں کا ہی کیوں نہ ہو
اور وہی چند لمحے ہی تو حقیقت ہوتے ہیں بے شک باقی سارا سفر خوابوں کا ہو۔
اور خوابوں کا کام تو ٹو ٹنا ہے ،انہیں بھلا ٹوٹنے سے کون روک سکتا ہے ۔
اُن کو ٹوٹنے میں تو بس آگہی کا ایک ہی لمحہ کافی ہے اور آگہی کو پانے کیلئے کبھی صدیاں کافی نہیں ہوتیں
اور کبھی ایک
لمحہ کئی صدیوں پہ بھاری ہوتا ہے

لیکھ کی لکیریں سب کی برابر نہیں
کسی کے چند آنسو پونچھنے کیلئے ہزاروں ہاتھ لے آتی ہیں اور کسی کی سمندر آنکھوں کو تنہائی اور خاک کا ڈھیر دے جاتی ہیں
کہ جس پہ سمندر آنکھیں بھی صحرا ہو جاتی ہیں
اور دل میں غم کی ایسی گھٹن بن جاتی ہے کہ جس کو فرار چاہیے ہوتا ہے سانسوں کو برقرار رکھنے کیلئے ۔ اور یہ فرار کبھی
’’ دشت وحشت ‘ ‘ میں لے جاتا ہے اور کبھی دشت تنہائی میں محفلیں سجاتا ہے ۔
لفظوں کی خیالوں کی ، دکھ اور سکھ سے سجے موتیوں کی ، یادوں کے ڈھیر پہ اٹھنے والی چنگاریوں کو
شعلہ بنانے کی اور دل کی بنجر زمین پہ یادوں کے پھول اگانے کی۔
کتنا دھوکہ دیتا ہے خود کو انسان ، ہار کے بھی جیت کے خیال سے خود کو خوش رکھتا ہے۔
خوش فہمیوں میں ایک خیال کو اپنے سلیقہ ہنر سے کس کما ل کا بت بنا دیتا ہے۔اور اسے
ہی پوجتارہتا ہے۔اِک ایسا پجاری بن بیٹھتا ہے جو عقل و شعور اور ادراک کے معنٰی
کھو چکا ہے۔جو اپنے ہاتھوں بنائے پیکر کو خدا سمجھ رہا ہے مگر اسے کون شعور دے کہ
لا حاصل عشق میں تو سب رائیگاں جاتا ہے۔
خلوص ، چاہت ، مروت ، وفا ، سب اس گونگے ، بہرے ، اندھے
لا حاصل عشق میں رائیگاں ہیں اور جب کبھی شعور پہ منکشف بھی ہو تو تب بھی
عشق اندھا بہرہ ہے
عشق کو تو بس ایک پیکر چاہیے
پوجنے کیلئے ، اسے اس سے کوئی مطلب نہیں کہ وہ پیکر کیسا ہے ،اس کا طلبگار ہے
بھی یا نہیں
اسے تو سارا سرو کار اسی پیکر سے ہے اور جب وقت کا دیو اس سے وہ پیکر چھین لے تو عشق کا
انجام صرف گوررہ جاتا ہے اکہ اسے بھلا اس پیکر کے بغیر بقاء کیسے ملے وہ کیسے جیئے ، وفا کیسے نبھے
اپنے ہاتھوں سے بنائے اس پیکر کوخدا سمجھنے والا یہ عشق حیراں و پریشاں ، پا پیادہ بے سروساماں اس
پیکر کو ڈھونڈنے لگ جاتا ہے اور آخر یونہی ڈھونڈتے ڈھونڈتے وقت کا دیو اسے نگل جاتا ہے۔
لاحاصل عشق کا یہ سفر بہت کٹھن ہوتا ہے بے بسی اور گھٹن سے بھر پور ،لمحہ لمحہ جسم و جاں سے لہو کو نچوڑ
کر آنکھوں کے راستے باہر نکالنے والا ، بے منزل ، بے نشاں راستہ ، جس کا انجام صرف موت
اور حشر کی امید ، اور یہ امید ایک طفل تسلی ، کہ بھلا حشر میں بھی مالک حقیقی کیا قدر کر ے کہ جس کی معبودیت
چھوڑ کے اک خیال کو معبود بنا لیا ہو ۔اور
روز حشر بھی تو وہی ساتھ ہوں گی جہاں طالب و مطلوب کا عشق ایک معنی رکھتا ہو ۔
وہاں بھلا صرف طالب کا عشق کیامعنی رکھے گا اور وہاں بھی عشق لا حاصل قدرت کی اصولوں کے مطابق۔

اور یہی انت یہی انجام ڈاکٹر نجمہ شاہین


Facebook Comments