یادوں کے سائباں میں بسر کر رہی ہے رات
خاکے میں زندگی کے دھنک بھر رہی ہے رات
مجھ سے ہے ہم کلام یا تجھ سے ہے اس کی بات
ویران راستوں کا سفر کر رہی ہے رات
مدت سے جل رہے ہیں یہاں آس کے دئے
بجھتے چراغ کو بھی قمر کر رہی ہے رات
ان کی مہک ہے آج مرے دل سے دور کیوں؟
پھولوں سے جھولیوں کو اگر بھر رہی ہے رات
دل کو کیا ملول اور ویران آنکھ کو
کچھ یوں بھی جسم و جاں میں قدم دھر رہی ہے رات
رکھ کر ردائے عشق میں کچھ پھول اور خواب
شاہین آج میری طرح مر رہی ہے رات
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ