سلام قول من رب رحیم ۔۔’’ فبای الا ربکما تکذبن‘


سلام قول من رب رحیم 
سردیوں کی تھٹھرتی صبحیں ہوتیں یا گرمیوں کی خوشگوار صبحیں وہ بلا ناغہ روزانہ خوش الہانی آواز سے پڑھتی رھتیں الحمد سے صراط مستقیم کا مطالبہ کرتے خود کو اور اپنے پیاروں کو آیت الکرسی کی حفاظت کے تصور میں دیکھتے جب وہ انتہائی خوبصورت اور پر سوز آواز میں سلام قول من رب رحیم تک پہنچتیں تو رک سی جاتیں ۔اور دینا کا سارا درد، دکھ ،خوبصورتی اپنے لہجے میں سمیٹ کر پڑھتی رھتیں ۔
سلام قول من رب رحیم ۔سلام قول من رب رحیم
یہ انکا روزانہ کا معمول تھا کہ وہ یہ سورت پڑھتے ہوئے سات دفعہ یہ آیت دہراتیں ۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ یہ آیت پانچ دفعہ پڑھتیں ۔ میرا دل ٹھہرجاتا انتظار کرتا کہ وہ سات دفعہ پڑھیں ۔ چار پانچ سال کی عمر میں ان کی تلاوت کی آواز سنکر میں رضائی سے نہ جانے کیسے سر نکالتی اور انتظار میں رہتی کہ وہ کب سلام قول من رب رحیم پر پہنچیں اور میں کب ان لفظوں کی خوشبو سے اپنی سماعت کو معطر کروں ۔ نہ جانے ایسا کیوں تھا ۔ وہ عمر جب مجھے ان لفظوں کے مفہوم کا کوئی شعور نہیں تھا کچھ پتہ نہیں تھا نہ جانے یہ کیسا انتظار ہوتا تھا ۔ جس کے سکون کو اتنی چھوٹی عمر میں بھی میں ڈھونڈتی ۔ اگر کبھی ماں پانچ دفعہ یہ آیت پڑھتیں تو میرا دل چاہتا کہ وہ سات دفعہ پڑھیں شاید وہ سات آسمانوں والے کے در کھولنے اور اُسکی وحدانیت و معبودیت کے آگے سر جھکائے اپنے مسجود ہونے اور اپنی روح کی سر شاری اور سکون کیلئے سات دفعہ پڑھیتں ۔ یا ان کی اس سورت کی اسطرح تلاوت اور اس آیت کی سات دفعہ دھرانے کا کوئی اور مطلب و معانی ہوتا تھا جو مجھے نہیں پتہ تھا اور نہ ہی میں مطالبہ کر سکتی تھی کہ مطلب پوچھوں کیونکہ میں ماں کی آنکھ کے سوال ڈرتی تھی کہ بھلا کیوں پوچھا ۔ پھر ان کی تلاوت جب اور آگے بڑھتی تو اکثر شام کے ملگجے سائے میں وہ ’’ فبای الا ربکما تکذبن‘‘ پڑھتیں تو میں ایک دم کہیں بھی ہوتی رک سی جاتی ۔ رک ہی جاتی ۔ واہ ماں کتنی خوبصورت آواز ہے تیری ۔ اتنی خوبصورت لوری اتنا خوبصورت شکریہ رب تعالیٰ کا :
’’ فبای الا ربکما تکذبن‘‘ ( اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ) بس سنتی جاتی سنتی ہی جاتی اور دل میں اس بنیاد کی اینٹ پہ اینٹ رکھتی جاتی ۔ایک خوبصورت عمارت بنتی جاتی ۔ جس میں چاندنی ہی چاندنی تھی ۔ کوئی میل کوئی اندھیرا نہیں تھا ۔ دکھوں کے گہرے سائے بھی اُس چاند نی کو کم نہ کر سکے جوانی دیوانی بھی کوئی ایسا میل نہ لاسکی جو ان لفظوں کی چاندنی اور شکریہ کی اس پرات میں کوئی کمی کرتا۔۔۔ نصابی کتابوں میں سر کھپانے سے پہلے لاڈلی ناجی بھی اپنی روح کو تیرے سلام ’’ سلام قول من رب رحیم ‘‘ سے سر شار کرتی اور اپنی صبح کو منور کرتے ہوئے شام کو ’’ فبای الا ربکما تکذبن‘‘ پڑھنے کا انتظار کرتی ۔ سب دن گزر گئے کہ زندگی کب کسی ایک شام میں ٹھہرتی ہے وہ شام کہ جس کی نہ کوئی رات ہو،اور جب رات نہیں تو صبح کیسے ہو ۔ مگر زندگی تو گزرنی ہے جیسے بھی گزرے آج بھی میرے ربا میں اسی مقام پہ ٹھہری ہوں،،تیری دنیا میں چاہت کا خسارہ ہی خسارہ دیکھا ہے ،میل ہی میل ہے یہاں دل کے میلے لوگوں میں ۔آج بھی روز پڑھتی ہوں سلام قوم من رب رحیم ۔ میرے مولا مگر سب کچھ ہوتے ہوئے ، سمجھتے ہوئے کونسی ایسی گرد آتی ہے ۔ کونسا ایسا اندھیرا آیا ہے جو میری آنکھوں کے سامنے آکر میری زبان میں لکنت لا کر میرے ہونٹوں کو ’’ فبای الا ربکما تکذبن‘‘ ادا کرنے سے روک دیتا ھے،،یہ کیسی دھند ہے ا ور آنکھوں کی نمی ہے جو ان لفظوں تک پہنچنے اور تیرے شکریے کی سر شاری تک پہنچنے اور ’’ فبای الا ربکما تکذبن‘‘ ادا کرتے روک دیتی ہے ۔یا اللہ آپ رحمن و رحیم ہیں ،رحم کیجیئے اپنی تخلیق پہ، معاف کر دیجئیے ۔ یا اللہ لوٹا دیجیئے اپنی عاشق کو وہ سارے خوبصورت لفظ کہ عشق کرنے والوں سے اظہار کی قوت نہیں چھینتے۔ بدنصیب ناجی آج بھی اپنی ماں کی طرح سلام سے نعمت تک کے وہ سارے لفظ ادا کرنا چاہتی ہے ۔ اپنے عشق میں سر شار ناجی کو اسکے لفظ لوٹا’ دیجئیے‘ ۔ لوٹا دیجیئے
سلام قول من رب رحیم ۔۔’’ فبای الا ربکما تکذبن‘‘


Facebook Comments