محبت کا چاند گرہن !
ماں کہتی تھی میری ننھی سی گڑیا آج باہر نہ نکل کیا تجھ کو معلوم نہیں آج سورج گرہن ہے روایت کہتی ہے سورج گرہن ہو تو دیکھنے سے آنکھیں بینائی کھو دیتی ہیں چہرے مرجھاجاتے ہیں ان پہ زردی چھا جاتی ہے
تازہ ترین
ماں کہتی تھی میری ننھی سی گڑیا آج باہر نہ نکل کیا تجھ کو معلوم نہیں آج سورج گرہن ہے روایت کہتی ہے سورج گرہن ہو تو دیکھنے سے آنکھیں بینائی کھو دیتی ہیں چہرے مرجھاجاتے ہیں ان پہ زردی چھا جاتی ہے
خود کو بھول جانے کا وعدہ کر رہے ہیں ہم بن ترے ہی جینے کا ارادہ کر رہے ہیں ہم روح و جاں کا رشتہ بس ٹوٹنے ہی والا ہے اور اب غموں کو ہی لبادہ کر رہے ہیں ہم سیدھے سادھے لفظوں میں اس کو ہم نے مانگا ہے
اک شخص میری عمر کے عنوان لے گیا میرے یقین کا ہر اک سامان لے گیا کچھ خواب تھے، کہ پھول تھے، تعبیر تھی یہاں جاتے ہوئے وہ اپنے سب پیمان لے گیا یادوں کے پھول جس میں سجاتی رہی تھی میں ہاتھوں سے میرے
اسے کہو جب بھی وہ میری تصویر دیکھے میری آنکھوں میں چھپے گرداب پڑھ لے مرے بے رنگ ہونٹوں کی خموش زباں کو سمجھے اور میری ژویدہ پیشانی مانند کتاب پڑھ لے میرے اوراق میں بکھرے ہوئے لفظوں کو سمیٹے گردش
اے میرے بے چین و بے قرار دل کیا تجھے معلوم ہے اسکابھی کوئی پل ایسا گزرتا ہو گا جیسے تو نے اسے پل پل سوچا اس نے بھی تجھ کو سوچا ہو گا جیسے یادیں ڈستی ہیں تجھے وہ بھی تو یاد کرتا ہو گا جب کوئی خوشی
وہ کہتا ! کیا رکھا ہے یادوں کے جھروکوں میں تلخیاں ہی تلخیاں ہیں ماضی کے دریچوں میں چلو چھوڑیں نادانیاں عقل سے کام لیں آؤ ! زمانے کا ساتھ دیں ، خوشی کا ہاتھ تھام لیں آؤ ! دکھ کے اندھیروں سے پہلے
میں کہتی کیسا لگتا ہے بعد برسوں کے پھر اک حسیں ملاقات کا منظر وہ کہتا ! دیکھ رہا ہوں اس دنیا میں قبول حرفِ مناجات کا منظر میں کہتی ! کیا اب بھی یاد ہے برسوں پہلے کے اس آخری ملاقات کا منظر وہ کہتا
کبھی جو لوٹ کے تم آؤ گے جاناں تم کو یاد آئیں گے دن وہ سارے وہ بیتی باتیں وہ لمحے پیارے جب انجانی ، ان دیکھی گلیوں میں دو دل مہک رہے تھے ایک منزل کے بن کے متلاشی انجان راہوں میں بھٹک رہے تھے یونہی
میں اُس سے کہتی ! یوں اپنے سینے پہ میرا سر نہ رکھو میں صدیوں کی جاگی ہوں مجھے نیند آجائیگی وہ بڑے مان سے بازو پھیلاتا مجھے سینے سے لگاتا اور بہت پیار سے سرگوشیوں میں کہتا آؤ ۔۔۔۔۔۔ آؤ میری جاں
کبھی بچے تھے تو سنتے تھے آکاس بیل تناور درخت کو جکڑ لے تو اس کی طاقت ، اس کے حسن کو اپنی بانہیں پھیلا کر ختم کر دیتی ہے تب پہروں بیٹھ کے سوچا کرتے تھے آکاس بیل ہوتی ہے کیا جب عشق ہجر کے دکھ نے من