جہاں دل کو بسانا ہو وہ بستی ہی نہیں ملتی
جہاں دل کو بسانا ہو وہ بستی ہی نہیں ملتی شکستہ پا ارادے ہوں تو منزل بھی نہیں ملتی ہمیں اس زندگی کو زندگی کرنا ہی مشکل ہے کہ اس پُر خار رستے پر تو آسانی نہیں ملتی گلہ اغیار سے کیوں کر کریں پھر بے
تازہ ترین
جہاں دل کو بسانا ہو وہ بستی ہی نہیں ملتی شکستہ پا ارادے ہوں تو منزل بھی نہیں ملتی ہمیں اس زندگی کو زندگی کرنا ہی مشکل ہے کہ اس پُر خار رستے پر تو آسانی نہیں ملتی گلہ اغیار سے کیوں کر کریں پھر بے
اُس بے وفا مزاج کی اپنی روایتیں ہیں یاد تیرے شہر کی ساری عنایتیں بے سایہ سب شجر تھے اور بے سائباں فلک موجود تھیں وہاں تو ازل کی حکایتیں انعام کی طرح سے ملا ہم کو ہر ستم لیکن لبوں پہ لا نہ سکے تھے
میری تنہائی کو اُس نے اور تنہا کر دیا جھیل سی آنکھیں تھیں اِن کو خشک صحرا کر دیا ہجر اچھا تھا جب اُس کو سوچ کر جیتے تھے ہم اِس فریبِ وصل نے دل کو تو پیاسا کر دیا گزرے لمحے اشک بن کر آنکھ میں روشن
یہ شہرِ دل عجیب موسموں سے آشنا ہوا کہ ہر طرف بس ایک ہی خیال ہے بسا ہوا بدلتے موسموں میں تم نے گر بھلا دیا تو کیا ملا ہے زخم حسرتوں کے روپ میں ڈھلا ہوا نصیب ہوں ،نئی مسافتیں تجھے نصیب ہوں مرے نصیب