آندھیوں میں اُڑا رہی ہے وفا
دشت کیسے دکھا رہی ہے وفا
چلتے چلتے میں تھک گئی ہوں مگر
اک نئی رہ دکھا رہی ہے وفا
پھر کوئی زخم بھرنے والا ہے
پھر مجھے یاد آرہی ہے وفا
ایک منظر مٹا دیا میں نے
ایک منظر بنا رہی ہے وفا
جس کا انجام ہی نہیں کوئی
داستاں وہ سنا رہی ہے وفا
میری آنکھوں میں خواب رکھا تھا
اُس کو آنسو بنا رہی ہے وفا