ایک تو ڈیرہ غازی خان جیسے نسبتاََ دُور افتادہ اور پسماندہ علاقے سے تعلق اُس پر ڈاکٹری جیسے سائنس نژاد مضمون میں تخصیص اور ان دونوں مشکِلات کے باوجود تین عمدہ شعری مجموعوں کی تخلیق ،اپنی جگہ پر ایک ایسا کارنامہ ہے جس پر ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کو جتنی داد دی جائے کم ہے۔
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری میں آج کل کی بیشتر خواتین شعرا کے مقابلے میں ایک مخصوص نوع کی بے باکی کے بجائے ایک قسم کا Restraintپایا جاتا ہے بات کو نہ کہتے ہوئے بھی کہہ جانے کا یہ رنگ خوشنما بھی ہے اور دِلکشا بھی ۔ غزل یوں تو ہے ہی بہت دھوکے باز قسم کی صنفِ سخن لیکن اس کے بعض مضامین تو ایسے ہیں کہ جو مرد شاعروں کے ہاں توبظاہربڑے سیدھے سادے اور Predictableسے دکھائی دیتے ہیں مگر جب یہ کسی خاتون کی زبان سے ادا ہوں تو ان میں ایک بالکل مختلف انداز کا جہانِ معنی کُھلنے لگتا ہے ۔
جہاں تک شعر کے Art یعنی فن کا تعلق ہے اس حوالے سے تو ڈاکٹر نجمہ شاہین کی شاعری اُن کی شخصیت اور ماحول کے مخصوص حوالے سے کم و بیش ٹھیک ٹھاک ہے البتہ جہاں تک Craft یعنی ہنر کا معاملہ ہے اُس میں ابھی انہیں مزید محنت کی ضرورت ہے کہ شاعری کسی مخصوص وزن اور بحر میں الفاظ کو پرونے کا نام ہی نہیں اُس کا تعلق موضوع کی مناسبت سے بہترین الفاظ کے چناؤ سے بھی ہے جسے انگریزی میں Selection of the most appropriate words اور اُردو میں تفحص اِلفاظ کہا جاتا ہے اور جس کی تربیت حاصل کرنے کا موزوں ترین طریقہ اساتذہ کے کلام کا مطالعہ ہے۔
مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹرنجمہ شاہین کا یہ تازہ ترین شعری مجموعہ اچھے اور باذوق قارئین کو مایوس نہیں کرے گا اور امید کرتا ہوں کہ ان کے اس فنی سفرکا اگلا پڑاؤ اس سے بھی زیادہ بہتر علاقے اور موسم میں ہوگا۔