باطن کی سچائیوں کا اظہاریہ ۔۔ قمر رضا شہزاد


جس طرح ادب کو ذات ،مذہب ،نسل اور علاقائی خانوں میں میں رکھ کر پرکھا نہیں جا سکتااسی طرح صنفی سطح پر بھی اس کی قدر و قیمت طے نہیں کی جا سکتی۔مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے تعصبات کی قید سے رہاہو ہی نہیں سکتے۔کبھی کسی کو ’’مضافاتی ادیب یا شاعر‘‘کہہ کر اپنی ناکامیوں اور محرومیں سے نظریں چرا رہے ہوتے ہیں اور کبھی خواتین کی شعری صلاحیتوں سے انکار کر کے اپنی خود ساختہ مردانگی کا ڈنکا پِیٹ رہے ہوتے ہیں۔مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،روشنی اپنا راستہ خود تلاش کر لیتی ہے اور خوشبو کے لئے کسی تعارف کی ضرورت نہیں ہوتی۔اسی طرح شاعر یا ادیب کسی بھی زبان کا ہو یا کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتا ہو اُس کے لفظ اُس کے ہونے کی گواہی دیتے ہیں ۔
محترمہ نجمہ شاہین کھوسہ بھی جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ ضلع ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی ہی شاعرہ ہیں جو اپنی شاعری کے حوالے سے ادبی منظر نامے پر نمایاں ہوئی ہیں ۔بطور ڈاکٹر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ تخلیقِ فن سے بھی اپنی کمٹمنٹ نبھا رہی ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جو کسی بھی تخلیق کار کو اُس کی منزل تک پہنچا سکتا ہے ۔
محترمہ نجمہ شاہین کی غزل اور نظم اُن کے باطن سے پھوٹتی سچائیوں کا اظہاریہ ہے۔اور یہ وہ سچائیاں ہیں جو نہ صرف اُن کے اپنے دکھ سکھ کا احاطہ کر رہی ہیں بلکہ ارد گرد پھیلی ہوئی تمام خوبصورتیوں اوربد صورتیوں کو بھی نہایت سلیقے سے بیان کر رہی ہیں۔چونکہ محبت ان کا بنیادی مقصد ہے لہٰذا یہ تمام معاملات محبت تک پہنچنے کے لئے اُن کی شاعری میں ڈھل رہے ہیں ۔اُن کے لفظ لفظ سے چھلکتی محبت کی خوشبو پوری کائنات کو اپنی گرفت میں لے رہی ہے ۔
محترمہ نجمہ شاہین کھوسہ کا یہ تیسرا شعری مجموعہ اُن کے تخلیقی سفر کا اگلا پڑاؤ ہے اور کسی شاعر کے لئے اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ابھی خدا نے اُس کے تخلیقی چشمے کو رواں دواں رکھا ہوا ہے جس سے وہ تشنگانِ ادب کی پیاس بجھانے پر قادر ہے


Facebook Comments