تم ہوئے جب سے خفا اپنے گرفتار کے ساتھ


تم ہوئے جب سے خفا اپنے گرفتار کے ساتھ
کچھ سروکار نہیں رونقِ بازار کے ساتھ

کتنے انمول ہیں یہ مہر و وفا کے موتی
کوئی پرکھو نہ انہیں درہم و دینار کے ساتھ

کب سے ٹھہری ہے مرے دل میں ادھوری خواہش
کاش دیکھے وہ مجھے ایک نظر پیار کے ساتھ

ہم کو معلوم نہیں عشق کے اسرارو رموز
کس نے فرہاد کو ٹکرایا ہے کہسار کے ساتھ

کیسے کٹتی ہے اُداسی میں ہر اک شامِ فراق
دو گھڑی تم بھی گزارو کبھی نادار کے ساتھ

دل کے ایوانوں میں ہے کب سے بپا شورشِ عشق
ایک ماتم کی صدا ہے مرے اشعار کے ساتھ

سوہنیاں ڈوب رہی ہیں ابھی دریاؤں میں
اور مہینوال نہیں موج کی للکار کے ساتھ


Facebook Comments