جانتی تھی ایک دن وہ بے خبر ہو جائے گا


جانتی تھی ایک دن وہ بے خبر ہو جائے گا
راستہ جیون کا بس دشوار تر ہو جائے گا

تھی بہت خاموش ،لیکن تھی طلب گارِ وفا
تھا یقیں مجھ پر دعاؤں کا اثر ہو جائے گا

بے خبر تھی اس حقیقت سے کہ یہ جیون مرا
کرب کے لمحات میں آخر بسر ہو جائے گا

ہجر کی تاریکیوں میں جل اُٹھا دل کا چراغ
عشق کی لَو سے یہ اب مثلِ قمر ہو جائے گا

بس یہاں پر شورہے اور سسکیاں ہیں چار سُو
یہ جہاں لگتا ہے دہشت کا ہی گھر ہو جائے گا

دل میں اک جذبہ بہت موہوم سا جاگاتھا کل
جانتی کب تھی یہ اک دن اس قدر ہو جائے گا

چشمِ وا میں وہ جو اک خالی سا منظر ہے ابھی
ایک دن میرے لئے میرا ہنر ہو جائے گا

خاک ہو جائیں گے ہم تعبیر کی خواہش لئے
خواب میں ہی اپنا یہ جیون بسر ہو جائے گا

مجھ کو شاہیں خوف ہے تو بس اسی لمحے سے ہے
جب وفا کا نام ہی دنیا میں ڈر ہو جائے گا


Facebook Comments