جب بھی اس کو بھولنا چاہا یاد بہت وہ آیا ہے


جب بھی اس کو بھولنا چاہا یاد بہت وہ آیا ہے
چاروں جانب دکھ کا موسم اور غموں کا سایہ ہے

دشتِ تپاں میں حدِ نظر تک ایک ہی منظر چھایا ہے
دھوپ کے شعلے آگ بگولے کون قیامت لایا ہے

شہرِ نگاراں، محفل یاراں بھول گئے سب دل والے
دورِ زمانہ دیکھ کے ہم نے خود کو خود سمجھایا ہے

دھوپ سروں تک آپہنچی ہے، نیند کے ماتو اٹھ بیٹھو
آنکھیں کھولو، وقت کو دیکھو، سخت سمے پھر آیا ہے

شاہینؔ ! کسی کو کیا بتلائیں کس نے ہمیں ناشاد کیا
جس کو جاں سے پیارا سمجھے، آج وہ دوست پرایا ہے


Facebook Comments