خوابوں میں بھی گر وصل کا امکان نہیں ہے
شب جاگتے رہنے میں بھی نقصان نہیں ہے
رستہ وہ بدلنا ہی تھا ہم دونوں نے لیکن
حیرت تو یہی ہے کہ تُوحیران نہیں ہے
کیوں خوف زدہ ہو گئے تم ایک گھٹا سے؟
میں نے تو بتایا تھا کہ طوفان نہیں ہے
پھر کون یہاں ایسا جو پہچانتا مجھ کو
جب تیرے سوا کوئی بھی پہچان نہیں ہے
شاہین گو اجڑا ہوا رستہ تو ہے لیکن
یہ دل کی طرح گوشۂ ویران نہیں ہے